لہو کا ذائقہ ہی جب زبان تک نہ گیا

لہو کا ذائقہ ہی جب زبان تک نہ گیا
تو کیا عجب ہے جو زخموں پہ دھیان تک نہ گیا


وہ ایک وہم جو سرمایۂ فقیری تھا
یقیں میں اس طرح بدلا گمان تک نہ گیا


بدل گئی کہیں رستے میں کیمیا اس کی
اٹھا غبار مگر آسمان تک نہ گیا


انا پرست تھے ایسے بدن تو پھر ہے بدن
ہمارا سایہ کبھی سائبان تک نہ گیا


بتا کے رہ گئے سب داؤ پیچ ساحل سے
ہوا کے ساتھ کوئی بادبان تک نہ گیا


خدا کا شکر کہ میرے ہی جرم کافی تھے
فقیہ شہر مرے خاندان تک نہ گیا


ہمارے تیر چھپائے نہیں گئے تھے منیرؔ
ہمارا ہات ہی اپنی کمان تک نہ گیا