کچھ اس طرح سے بسر کی ہے زندگی میں نے

کچھ اس طرح سے بسر کی ہے زندگی میں نے
غموں کی چھاؤں میں ڈھونڈی ہے سر خوشی میں نے


جو میری ذات کا سب سے بڑا مخالف تھا
متاع عمر اسی کو ہی بخش دی ہم نے


مجھے نکال دیا اس نے دل کی بستی سے
کہ بات دل کی سر بزم کیوں کہی میں نے


حصول زر کا جو موقع کبھی ملا مجھ کو
گنوا دیا ہے اسے کر کے شاعری میں نے


ہر ایک شخص مری دوستی کا طالب تھا
ہر ایک شخص سے لی مول دشمنی میں نے


یہ میرا نام منورؔ ضرور ہے لیکن
کبھی نہ پائی قریب اپنے روشنی میں نے