جہاں بچپن گزارا تھا وہ گھر پہچانتے ہیں

جہاں بچپن گزارا تھا وہ گھر پہچانتے ہیں
ابھی ہم شہر کی ہر رہ گزر پہچانتے ہیں


پرندے جس طرف جائیں پلٹ آتے ہیں شب کو
وہ اپنا آشیاں اپنا شجر پہچانتے ہیں


ابھی گلیاں نہیں بھولیں مرے قدموں کی آہٹ
مجھے اس شہر کے در و دیوار پہچانتے ہیں


کبھی میرے حوالے سے رہی پہچان جن کی
مجھے وہ پاس آ کر سوچ کر پہچانتے ہیں


نہیں پہچانتے کچھ لوگ دنیا میں تو کیا ہے
مرے فن کو سبھی اہل نظر پہچانتے ہیں


جو آنکھیں روزنوں سے جھانکتی تھیں اب نہیں ہیں
گھروں کے بند دروازے مگر پہچانتے ہیں


منورؔ ہم نے یوں اس شہر کی چیزوں کو دیکھا
مسافر جیسے سامان سفر پہچانتے ہیں