عشق کا اعتبار ہیں ہم لوگ

عشق کا اعتبار ہیں ہم لوگ
زندگی کا وقار ہیں ہم لوگ


گرد لیل و نہار ہیں لیکن
غازہ نو بہار ہیں ہم لوگ


سر پہ بار فلک اٹھائے ہیں
گو نحیف و نزار ہیں ہم لوگ


دشمنوں کے لئے پیام مرگ
اور یاروں کے یار ہیں ہم لوگ


زندگانی گنوا نہ دے ہم کو
حاصل روزگار ہیں ہم لوگ


اک سفر تیرگی میں جاری ہے
اسپ شب پر سوار ہیں ہم لوگ


حسن کی قدر ہے ہمیں معلوم
شاعروں میں شمار ہیں ہم لوگ


آئنہ دیکھنا بھی ہے مشکل
اس قدر شرمسار ہیں ہم لوگ


ہم منورؔ ہیں پاسباں گل کے
اس گلستاں میں خار ہیں ہم لوگ