Muhiuddin Gulfam

محی الدین گلفام

  • 1989

محی الدین گلفام کی غزل

    نہ ہو عذاب تو کوئی اگر ثواب نہ ہو

    نہ ہو عذاب تو کوئی اگر ثواب نہ ہو شراب پینے سے ایمان تو خراب نہ ہو خدا کو بھولے ہوں اور دل میں اضطراب نہ ہو تو کیا ہو ایسے میں نازل اگر عتاب نہ ہو کہیں حقیقت احوال مثل خواب نہ ہو وہ رو بہ رو ہو مگر دیکھنے کی تاب نہ ہو عقیدتیں بھی دلوں سے نکل ہی جاتی ہیں یہ اور بات کہ سجدوں سے ...

    مزید پڑھیے

    اب تمہی جانو کہ کیسے طے کرو گے راستے

    اب تمہی جانو کہ کیسے طے کرو گے راستے قافلے والے تو کب کا چھوڑ کر جا بھی چکے مجھ کو اپنے بد نما کردار کا ہے اعتراف آپ اپنی پاک بازی کے ڈھنڈھورے پیٹئے شہر بھر میں آج وہ دیکھا گیا ہے جا بجا اور ہم اک رات پہلے شہر میں موجود تھے خوب ہے آرائش و زیبائش بزم خیال سوچئے کچھ بیٹھیے تو ...

    مزید پڑھیے

    چاند چھونے کی دھن میں ہوئے جاتے ہیں دور مٹی سے ہم ہم سے مٹی بہت

    چاند چھونے کی دھن میں ہوئے جاتے ہیں دور مٹی سے ہم ہم سے مٹی بہت چاند کا ہاتھ آنا نہ آنا ہی کیا سانحہ تو ہے مٹی سے دوری بہت جب کہ سب اک روش ہی پہ ہوں گامزن رہ جدا کرنا آسان ہے جان من سچ کا ایسے میں جامہ کرو زیب تن جھوٹ کے جب ہوں چو طرفہ حامی بہت خوف کا دل میں طوفان رکھا گیا پا بہ ...

    مزید پڑھیے

    زیست کا حاصل جوانی ہے مگر وہ سن گیا

    زیست کا حاصل جوانی ہے مگر وہ سن گیا اصل جو سرمایۂ ہستی تھا یعنی چھن گیا عشق کی بے سمتیوں کا اس نے جب مانگا حساب انگلیوں پر عمر کی ساری بہاریں گن گیا اب تو کم از کم اجڑ جا اے دل خانہ خراب دھڑکنیں کیسے رواں ہیں جب ترا ساکن گیا مل گیا یا پا لیا جو تھا مقدر کا لکھا دسترس سے دور ممکن ...

    مزید پڑھیے

    اسی صنم کے لئے خوار ہم یہاں کم ہیں

    اسی صنم کے لئے خوار ہم یہاں کم ہیں مرے رقیب ہمیں کیا عذاب جاں کم ہیں مرے چمن کو کسی کی نظر نے کھایا ہے خزاں کا دور نہیں پھر بھی تتلیاں کم ہیں تو کیا ہوا کہ اگر لکڑیاں نہیں ملتیں ہمارے پاس جلانے کو لڑکیاں کم ہیں یہ کس کے سوگ میں مہتاب منہ چھپائے ہے یہ کس کے غم میں ستارے بھی ضو ...

    مزید پڑھیے