زیست کا حاصل جوانی ہے مگر وہ سن گیا
زیست کا حاصل جوانی ہے مگر وہ سن گیا
اصل جو سرمایۂ ہستی تھا یعنی چھن گیا
عشق کی بے سمتیوں کا اس نے جب مانگا حساب
انگلیوں پر عمر کی ساری بہاریں گن گیا
اب تو کم از کم اجڑ جا اے دل خانہ خراب
دھڑکنیں کیسے رواں ہیں جب ترا ساکن گیا
مل گیا یا پا لیا جو تھا مقدر کا لکھا
دسترس سے دور ممکن اور نہ نا ممکن گیا
غیر سے گلفام اس کو بے تکلف دیکھ کر
ایک پل میں اعتبار ظاہر و باطن گیا