نہ ہو عذاب تو کوئی اگر ثواب نہ ہو
نہ ہو عذاب تو کوئی اگر ثواب نہ ہو
شراب پینے سے ایمان تو خراب نہ ہو
خدا کو بھولے ہوں اور دل میں اضطراب نہ ہو
تو کیا ہو ایسے میں نازل اگر عتاب نہ ہو
کہیں حقیقت احوال مثل خواب نہ ہو
وہ رو بہ رو ہو مگر دیکھنے کی تاب نہ ہو
عقیدتیں بھی دلوں سے نکل ہی جاتی ہیں
یہ اور بات کہ سجدوں سے اجتناب نہ ہو
نہ جانے اور ابھی کیا وہ گل کھلائے گا
ابھی سے اس کے سوالوں کے لا جواب نہ ہو
خدا کرے کہ مرے بعد تا ابد مجھ سا
اسیر ذائقہ و لذت شراب نہ ہو
یہ دلبری کے تقاضوں کے بھی منافی ہے
کہ یار سامنے ہو اور بے حجاب نہ ہو
سلوک عشق میں بے فیض ہیں وہ لب جن سے
حصول لذت شیرینیٔ لعاب نہ ہو
گراں ہے طبع پہ کیوں جام و بادہ اے گلفامؔ
شباب کیسا اگر گرمئی شباب نہ ہو