چاند چھونے کی دھن میں ہوئے جاتے ہیں دور مٹی سے ہم ہم سے مٹی بہت
چاند چھونے کی دھن میں ہوئے جاتے ہیں دور مٹی سے ہم ہم سے مٹی بہت
چاند کا ہاتھ آنا نہ آنا ہی کیا سانحہ تو ہے مٹی سے دوری بہت
جب کہ سب اک روش ہی پہ ہوں گامزن رہ جدا کرنا آسان ہے جان من
سچ کا ایسے میں جامہ کرو زیب تن جھوٹ کے جب ہوں چو طرفہ حامی بہت
خوف کا دل میں طوفان رکھا گیا پا بہ زنجیر مہمان رکھا گیا
ہم کو محروم عرفان رکھا گیا بے سبب تو نہیں مہربانی بہت
وار سارے ہی اس کے دھرے رہ گئے پے بہ پے گو بدلتا رہا پینترے
میں نے چاہا نمود ہنر وہ کرے تھی وگرنہ مری اک ہی بازی بہت
لاکھ مانا کہ نا تجربہ کار ہے تجربے سے مگر کیا سروکار ہے
عشق کو حسن کے ناز و انداز کی ہوتی ہی ہے سمجھ بوجھ تھوڑی بہت
بے سبب پوچھتا بھی نہیں آدمی بے غرض تھوکتا بھی نہیں آدمی
آج خود میرے در تک چلے آئے ہو واقعی کام تھا کیا ضروری بہت
جان بے شک مری لے لے نذرانہ وہ بخش دے بس معافی کا پروانہ وہ
مان کر مجھ کو گلفامؔ دیوانہ وہ کر نہیں لیتا کیوں ظرف عالی بہت