اب تمہی جانو کہ کیسے طے کرو گے راستے
اب تمہی جانو کہ کیسے طے کرو گے راستے
قافلے والے تو کب کا چھوڑ کر جا بھی چکے
مجھ کو اپنے بد نما کردار کا ہے اعتراف
آپ اپنی پاک بازی کے ڈھنڈھورے پیٹئے
شہر بھر میں آج وہ دیکھا گیا ہے جا بجا
اور ہم اک رات پہلے شہر میں موجود تھے
خوب ہے آرائش و زیبائش بزم خیال
سوچئے کچھ بیٹھیے تو سوچتے رہ جائیے
مجھ کو دیکھے سے جو آئے بیش قیمت ہے مجھے
آپ کی وہ مسکراہٹ آپ کے الفاظ سے
مجھ کو کہنا بھی نہیں پڑتا کہ بانہیں کھول دو
خود لپٹ جاتا ہے آ کر مجھ سے شرمائے ہوئے
آپ کے خواب اپنی آنکھوں میں سجا لے شوق سے
بندۂ ناچیز کو اتنی اجازت بخشئے
بھولنے کی اب یہی گلفامؔ اک صورت رہی
جام ہونٹوں سے لگا کر رقص میں کھو جائیے