سایہ جس کا نظر آتا ہے مجھے
سایہ جس کا نظر آتا ہے مجھے
وہ بھی سایہ نظر آتا ہے مجھے
وہ جو ہوتا ہی چلا جاتا ہے
کچھ نہ ہوگا نظر آتا ہے مجھے
چاٹ جاتی ہے نظاروں کو نظر
کیا کہوں کیا نظر آتا ہے مجھے
آئنہ پھاند گیا جوش جنوں
بالکل ایسا نظر آتا ہے مجھے
ہر لکھا خامۂ دانائی کا
آج الٹا نظر آتا ہے مجھے
کیا غضب ہے کہ مرا اصل وجود
عکس میرا نظر آتا ہے مجھے
کیا قیامت ہے کہ جاتا ہوا وقت
ادھر آتا نظر آتا ہے مجھے
کہیں خوشبو ہے سنائی دیتی
کہیں نغمہ نظر آتا ہے مجھے
بیج بس اپنے شجر ہونے کا
اک ارادہ نظر آتا ہے مجھے
بے مسافر ہے سفر پیش نظر
ذہن گویا نظر آتا ہے مجھے
ہر گماں ایک حقیقت ہے محبؔ
سچ مچ ایسا نظر آتا ہے مجھے