Monika Singh

مونیکا سنگھ

مونیکا سنگھ کی غزل

    ہمارا قد ہی بھرمائے ہمیں

    ہمارا قد ہی بھرمائے ہمیں بہت لمبے لگے سائے ہمیں سمندر کی خاموشی دیکھ کر کئی طوفان یاد آئے ہمیں ہم اس کی پیاس کا حصہ نہیں یہی اک بات ترسائے ہمیں کئی پہلو ہے تیری ذات کے جو تجھ سے دور لے جائیں ہمیں رہائی کا عجب احساس ہے وہ اب کے یاد کم آئے ہمیں

    مزید پڑھیے

    خامشی کس کی زبانی ہو گئے

    خامشی کس کی زبانی ہو گئے کیوں ندامت کی نشانی ہو گئے اک نظر ڈالی بھری محفل میں جب رنگ میرے آسمانی ہو گئے آخرش رشتہ نا قائم ہو سکا خواب جو دیکھے کہانی ہو گئے سچ کہا تو نے کہ تیرے ہیں مگر لفظ سارے بے معانی ہو گئے ذکر تیرا ہو سکا ہم سے نہیں غیر تیری زندگانی ہو گئے

    مزید پڑھیے

    کسی سے راز دل کہنا یہ خو رسوا کراتی ہے

    کسی سے راز دل کہنا یہ خو رسوا کراتی ہے تری یہ بات تنہائی میں پیہم یاد آتی ہے کہ ہنس کے ٹالتے ہیں ذکر تیرا کوئی گر چھوڑے صبا پھر بھی گزشتہ راتوں کے قصے سناتی ہے نہ جانے سخت کیوں ہے دل ترا حیرت سی ہوتی ہے طلب پیغام کی تیرے مجھے اکثر رلاتی ہے بلندی پہ اگر وہ ہے تو اتنی بے رخی کیوں ...

    مزید پڑھیے

    وقت کی ناکامیاں ہیں اور کیا

    وقت کی ناکامیاں ہیں اور کیا فاصلے اب درمیاں ہے اور کیا پوچھتا حاصل زمانہ عشق کا چاہتوں میں دوریاں ہیں اور کیا کیوں سبھی میں ڈھونڈتے ہو خوبیاں خوب صورت خامیاں ہیں اور کیا سامنے دیکھا نہ پیچھے رو دئے ایسی بھی مجبوریاں ہیں اور کیا تشنگیٔ عشق ہو بے انتہا جھوٹ سب دشواریاں ہیں ...

    مزید پڑھیے

    آخری سانسوں تلک لڑتی رہی

    آخری سانسوں تلک لڑتی رہی زندگی امید ہوں کہتی رہی چند جملوں میں کہی سب کے لئے وہ کہانی عمر بھر چلتی رہی جانے کیا ہے بات پر منزل مجھے رہ گزر چھو کر تری ملتی رہی یاد تو آیا نہ ہو ایسا نہیں دید کی خواہش مگر مٹتی رہی لاکھ گھاؤ کو چھپایا تھا مگر زخم ڈھکنے کی ردا پھٹتی رہی

    مزید پڑھیے

    تجھے دیکھا مری آنکھوں میں جب شادابیاں آئیں

    تجھے دیکھا مری آنکھوں میں جب شادابیاں آئیں تری بے مہر آنکھوں میں تبھی بے زاریاں آئیں نہ جانے اور کیا کیا کہہ رہی تھی وادیاں مجھ سے ترا جب ذکر چھیڑا تھا عجب خاموشیاں آئیں حصار یاس کی جانب صدائیں آ رہی گرچہ محض چہرے نہیں آئے کئی پرچھائیاں آئیں ہمیں شہرت بلندی تک اگر لے کے چلی ...

    مزید پڑھیے

    دل ابر ہے ایسا کبھی روتا نہیں

    دل ابر ہے ایسا کبھی روتا نہیں پھر بھی خفا کیوں آئنا ہوتا نہیں ہم چھوڑ آئے تھے تسلی کے لئے یہ درد دل کیوں بھیڑ میں کھوتا نہیں پھر خواب نہ ٹوٹے وہ پچھلی رات سا اس خوف میں اکثر یہ دل سوتا نہیں اب بارشیں بھی چاہتوں کی تھک گئی دل کی زمیں پر عشق وہ بوتا نہیں

    مزید پڑھیے

    محفلوں میں ذکر اس کا جب چھڑا میرے لئے

    محفلوں میں ذکر اس کا جب چھڑا میرے لئے پوچھتا ہر ایک سے دل کیا کہا میرے لیے کیا مراٹھی اور اردو زیست کے میزان میں ایک گھر پانی ہے تو دوجے ہوا میرے لئے جب کبھی آواز دی تو نے مجھے تو یہ لگا دیر کی ہو گھنٹیاں تیری صدا میرے لئے صفحۂ ہستی پہ لکھا بے خودی میں ایک نام سانس لینے کا سبب وہ ...

    مزید پڑھیے

    تیرے آنے کی خبر دیتی رہی پاگل ہوا

    تیرے آنے کی خبر دیتی رہی پاگل ہوا تجھ تلک میری حیا لے کر گئی پاگل ہوا دھوپ کچی شام تنہا اور اندھیروں کا ہجوم ان میں اپنا عکس دکھلاتی چلی پاگل ہوا دن ڈھلے گھر لوٹ آنا قفل کرنا حسرتیں کیوں نہیں یہ ختم ہوتا سوچتی پاگل ہوا شہر میں تیرے ہیں تجھ کو بھولنے کی ضد بڑی بے سبب دل کی ...

    مزید پڑھیے

    رواں رواں تھا جب تیرا خیال بھی

    رواں رواں تھا جب تیرا خیال بھی تو دل سے پوچھے ہم نے کچھ سوال بھی ہوا ہی تیرے شہر کی عجیب تھی بچھڑنے کا نہ تھا کوئی ملال بھی وہ ساتھ ہو تو سوجھتا نہ اور کچھ حسین کیفیت میں بیتے سال بھی رقابتوں کو سمجھے ہم رفاقتیں لکھا تھا ہاتھوں اپنے ہی زوال بھی وہ کہتا ہے ہتھیلی چوم کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2