خامشی کس کی زبانی ہو گئے
خامشی کس کی زبانی ہو گئے
کیوں ندامت کی نشانی ہو گئے
اک نظر ڈالی بھری محفل میں جب
رنگ میرے آسمانی ہو گئے
آخرش رشتہ نا قائم ہو سکا
خواب جو دیکھے کہانی ہو گئے
سچ کہا تو نے کہ تیرے ہیں مگر
لفظ سارے بے معانی ہو گئے
ذکر تیرا ہو سکا ہم سے نہیں
غیر تیری زندگانی ہو گئے