رواں رواں تھا جب تیرا خیال بھی
رواں رواں تھا جب تیرا خیال بھی
تو دل سے پوچھے ہم نے کچھ سوال بھی
ہوا ہی تیرے شہر کی عجیب تھی
بچھڑنے کا نہ تھا کوئی ملال بھی
وہ ساتھ ہو تو سوجھتا نہ اور کچھ
حسین کیفیت میں بیتے سال بھی
رقابتوں کو سمجھے ہم رفاقتیں
لکھا تھا ہاتھوں اپنے ہی زوال بھی
وہ کہتا ہے ہتھیلی چوم کر میری
کسی لکیر میں تو ہو وصال بھی
سوال عشق سے ہی پوچھنے لگے
ہے بے وفائی کا ایسا وبال بھی
لئے ہیں بوسے ہم نے تیرے نام کے
وہ پہلے عشق کا دیکھا کمال بھی