Monika Singh

مونیکا سنگھ

مونیکا سنگھ کی غزل

    کوئی آنسو بہانے آ گیا شاید

    کوئی آنسو بہانے آ گیا شاید اسے میرا تڑپنا بھا گیا شاید ہنسی میرے لبوں کی جس کو تھی پیاری مجھے وہ دیکھ کر اکتا گیا شاید وہ گل جس سے چمن ہر پل مہکتا تھا وہ زد سے وقت کی مرجھا گیا شاید یکایک نیند میں آنسو نکل آئے وہ خوابوں میں مجھے تڑپا گیا شاید ملا ویسے ہی جیسے پہلے ملتا تھا ورق ...

    مزید پڑھیے

    تو لہو میں رواں نہیں ہوتا

    تو لہو میں رواں نہیں ہوتا جانے کیا کیا گماں نہیں ہوتا سارے خط ہم جلا کے آئے ہیں یادوں کا اب دھواں نہیں ہوتا ان کی بیباکیاں سہی دل نے ورنہ دل بے زباں نہیں ہوتا دیکھو الفاظ کی بھی بیتابی عشق ایسے عیاں نہیں ہوتا رہ تیرہ میں گرچہ جگنو ہے تنہا سچ کارواں نہیں ہوتا

    مزید پڑھیے

    دھڑکنوں کی بس زبانی دے مجھے

    دھڑکنوں کی بس زبانی دے مجھے ایک پل کو زندگانی دے مجھے چاہ کر جو نا مکمل ہو سکی وہ ادھوری سی کی کہانی دے مجھے ہو اگر ممکن تجھے اے زندگی آبشاروں سی روانی دے مجھے بوجھ زخموں کا لئے چلتی رہوں یاد کی وہ بے کرانی دے مجھے ہر بلندی سے بنیں راہیں نئی حوصلے کچھ آسمانی دے مجھے فخر سے ...

    مزید پڑھیے

    تیرا اثر مجھ میں نظر آتا ہے کیوں

    تیرا اثر مجھ میں نظر آتا ہے کیوں یہ سوچ کے دل اور گھبراتا ہے کیوں کوئی نہ دیکھے اشک ٹھہری آنکھوں میں چہرا مرا اتنا بھی مسکاتا ہے کیوں جب دائروں میں ہی کٹی ہے زندگی دل قید سے بے بات جھلساتا ہے کیوں تقدیر نے شاید کہانی ہو لکھی مت پوچھ ہم کو وقت ملواتا ہے کیوں بازار میں خود کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2