کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے دس بیس روز مرتے ہیں دو چار کے لیے دیکھا عذاب رنج دل زار کے لیے عاشق ہوئے ہیں وہ مرے آزار کے لیے دل عشق تیری نذر کیا جان کیونکہ دوں رکھا ہے اس کو حسرت دیدار کے لیے قتل اس نے جرم صبر جفا پر کیا مجھے یہ ہی سزا تھی ایسے گنہ گار کے لیے لے تو ہی بھیج دے ...