Moin Shadab

معین شاداب

معین شاداب کی غزل

    جلا کے آنکھیں سیاہ شب کو کھنگالنا ہے

    جلا کے آنکھیں سیاہ شب کو کھنگالنا ہے اسی اندھیرے سے ہم کو سورج نکالنا ہے جو باقی چیزیں ہیں وہ تو میں سب سنبھال لوں گا تمہیں یہ کرنا ہے صرف مجھ کو سنبھالنا ہے شکست جس کا نصیب ہوگی کچھ اس کا سوچو تمہارا کیا ہے تمہیں تو سکہ اچھالنا ہے وہ سنگ دل ہے مگر اسے موم کر رہا ہوں انہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل صحرا آباد بھی کرنا پڑتا ہے

    دل صحرا آباد بھی کرنا پڑتا ہے اس ظالم کو یاد بھی کرنا پڑتا ہے بے مقصد کے شغل بھی راس آ جاتے ہیں وقت کبھی برباد بھی کرنا پڑتا ہے عرض ہی کرتے رہنے میں گھاٹا ہے بہت کبھی کبھی ارشاد بھی کرنا پڑتا ہے جلووں کے خوش رنگ پرندوں کی خاطر آنکھوں کو صیاد بھی کرنا پڑتا ہے آمد کے قائل تو ہم ...

    مزید پڑھیے

    بس اک نظر میں دل و جاں فگار کرتا ہے

    بس اک نظر میں دل و جاں فگار کرتا ہے وہ شخص کتنے سلیقے سے وار کرتا ہے تمہاری چال سے تو مات کھا گیا وہ بھی وہی جو اڑتے پرندے شکار کرتا ہے یہ مرحلہ بھی کسی امتحاں سے کم تو نہیں وہ شخص مجھ پہ بہت اعتبار کرتا ہے یہ کس کا حسن مہکتا ہے میرے شعروں میں یہ کون ہے جو انہیں خوش گوار کرتا ...

    مزید پڑھیے

    اس کو ہماری ذات سے انکار بھی نہیں

    اس کو ہماری ذات سے انکار بھی نہیں لیکن وہ اعتراف کو تیار بھی نہیں روغن چراغ چشم میں جتنا تھا جل چکا اور شہر جاں میں صبح کے آثار بھی نہیں بیکار ڈھونڈھتے ہو سماعت میں خامیاں پہلی سی گھنگھروؤں میں وہ جھنکار بھی نہیں دو چار پل قیام کا کچھ تو جواز ہو کوچے میں اس کے سایۂ دیوار بھی ...

    مزید پڑھیے

    جب لے کے ہتھیلی پر ہم جان نکلتے ہیں

    جب لے کے ہتھیلی پر ہم جان نکلتے ہیں ظلمت میں اجالوں کے امکان نکلتے ہیں پھر لے کے حساب دل پچھتانا پڑا اس کو کچھ اس پہ ہمارے ہی احسان نکلتے ہیں یہ شہر رہا ہوگا شائستہ مزاجوں کا اس شہر کے ملبے سے گلدان نکلتے ہیں اے اہل نظر تیرے خطبات پہ بھاری ہیں دیوانے کے منہ سے جو ہذیان نکلتے ...

    مزید پڑھیے

    بیداری خوابوں کو بھاری پڑتی ہے

    بیداری خوابوں کو بھاری پڑتی ہے سوتا ہوں تو رات اکیلی پڑتی ہے رشتے کی یہ حد ہے آگے مت بڑھنا اس کے آگے چکنی مٹی پڑتی ہے سستے لوگوں سے ملنے میں گھاٹا ہے ان لوگوں کی یاری مہنگی پڑتی ہے پہلے ایک دوا خانہ پھر قبرستان اس کے بعد ہماری بستی پڑتی ہے پہلے سگریٹ باپ سے چھپ کر پیتے تھے اب ...

    مزید پڑھیے

    زخموں کی دکانوں پہ خریدار بھی آئے

    زخموں کی دکانوں پہ خریدار بھی آئے بازار ہے تو رونق بازار بھی آئے شانوں پہ یہاں سر کی جگہ کاسے لگے ہیں گر سر کی بحالی ہو تو دستار بھی آئے لو حق کے لیے اپنی جڑیں چھوڑ دیں ہم نے اب گھر سے نکل کر کوئی انصار بھی آئے کوشش کا یہ چاک اور گھماؤں گا میں کب تک جیون پہ مرے اب کوئی آکار بھی ...

    مزید پڑھیے

    کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں

    کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں یہ سنگ ریزے پلک سے اٹھانے پڑتے ہیں بہت سے درد تو ہم بانٹ بھی نہیں سکتے بہت سے بوجھ اکیلے اٹھانے پڑتے ہیں یہ بات اس سے پتا کر جو عشق جانتا ہو پلوں کی راہ میں کتنے زمانہ پڑتے ہیں ہر ایک پیڑ کا سایا نہیں ملا کرتا بلا غرض بھی تو پودے لگانے پڑتے ...

    مزید پڑھیے

    صرف پرکھوں کے حوالوں سے نہیں چلتا ہے

    صرف پرکھوں کے حوالوں سے نہیں چلتا ہے کام مانگے کے اجالوں سے نہیں چلتا ہے بعض اوقات اندھیروں کی طلب ہوتی ہے کام ہر وقت اجالوں سے نہیں چلتا ہے عشق کے بیچ میں تو عقل کہاں لے آیا یار بزنس یہ دلالوں سے نہیں چلتا ہے بھائی شادابؔ سنو شعر و سخن کا دفتر صرف محبوب کے گالوں سے نہیں چلتا ...

    مزید پڑھیے

    کنبے کا بار اٹھاتا تھا تنہا جو جان پر

    کنبے کا بار اٹھاتا تھا تنہا جو جان پر بوڑھا ہوا تو بوجھ بنا خاندان پر لمحہ بہ لمحہ پاؤں سے لپٹی ہیں ہجرتیں کیسے لگاتے نام کی تختی مکان پر یہ کیا ہر ایک بات بیاں ہو زبان سے تتلی ہم ایک چھوڑ چلے پھول دان پر کچھ ندرت خیال ہو کچھ فکر بے مثال کیوں صرف زور دیتے ہو زور بیان پر

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2