اس کو ہماری ذات سے انکار بھی نہیں

اس کو ہماری ذات سے انکار بھی نہیں
لیکن وہ اعتراف کو تیار بھی نہیں


روغن چراغ چشم میں جتنا تھا جل چکا
اور شہر جاں میں صبح کے آثار بھی نہیں


بیکار ڈھونڈھتے ہو سماعت میں خامیاں
پہلی سی گھنگھروؤں میں وہ جھنکار بھی نہیں


دو چار پل قیام کا کچھ تو جواز ہو
کوچے میں اس کے سایۂ دیوار بھی نہیں


تجھ کو سخن شناس بہ ہر حال چاہیے
شادابؔ تیرا کوئی طرف دار بھی نہیں