Mohsin Zaidi

محسن زیدی

معروف ترقی پسند شاعر / یوپی کے شہر بہرائچ میں پیدائش/ فراق کے شاگرد

Well-known progressive poet who hailed from Bahraich, a small town in UP, India.

محسن زیدی کی غزل

    گلہ نہیں کہ مخالف مرا زمانہ ہوا

    گلہ نہیں کہ مخالف مرا زمانہ ہوا میں خود ہی چھوڑ کے کار جہاں روانہ ہوا میں اب چلا کہ مرا قافلہ روانہ ہوا کبھی پھر آؤں گا واپس جو آب و دانہ ہوا میں بالمشافہ نہیں جانتا کسی کو یہاں کہ مجھ سے میرا تعارف بھی غائبانہ ہوا ہوائے گل بھی نہ پیروں کی بن سکی زنجیر بہار میں بھی نہ اب کے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    منزل و سمت سفر سے بے خبر نا آشنا

    منزل و سمت سفر سے بے خبر نا آشنا ہم سفر مجھ کو ملا کیسا سفر نا آشنا سارے ہی چہرے سبھی دیوار و در نا آشنا لگ رہا ہے مجھ کو سارا ہی نگر نا آشنا شمع اک نامحرم اسرار شب ہنگام شام اک ستارہ آخر شب اور سحر نا آشنا موج تیز و تند سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی اپنے برگ و بار سے شاخ شجر نا ...

    مزید پڑھیے

    زمانے بھر کی ذلت سامنے تھی

    زمانے بھر کی ذلت سامنے تھی ہنر مندی کی قیمت سامنے تھی شکست خواب کا عالم نہ پوچھو بڑی کڑوی حقیقت سامنے تھی نہاں سارا ہی چہروں سے عیاں تھا دلوں کی سب کدورت سامنے تھی

    مزید پڑھیے

    کوئی بے وجہ کیوں خفا ہوگا

    کوئی بے وجہ کیوں خفا ہوگا کچھ تو اس کو برا لگا ہوگا آگے جا کر ٹھہر گیا ہوگا وہ مری راہ تک رہا ہوگا چھوڑ آئے تھے ہم جلا کے جسے وہ دیا کب کا بجھ گیا ہوگا جب وہ آواز تھم گئی ہوگی شب کا سناٹا بولتا ہوگا کیسے معلوم ہو کہ آخر وقت اس نے کیا کچھ کہا سنا ہوگا کیوں ہوا تیز ابھی سے چلنے ...

    مزید پڑھیے

    خواہش تخت و تاج اور ہے کچھ

    خواہش تخت و تاج اور ہے کچھ لیکن اپنا مزاج اور ہے کچھ کیا بھروسا بدلتے موسم کا رنگ کل کچھ تھا آج اور ہے کچھ پاسداری یہاں نہیں چلتی اس نگر کا رواج اور ہے کچھ خوش نہ ہو ہم جو ہو گئے خاموش صورت احتجاج اور ہے کچھ کام چلتا نہیں ہے مرہم سے زخم دل کا علاج اور ہے کچھ سوچنا اور اداس ہو ...

    مزید پڑھیے

    کیا دیکھتے ہو راہ میں رک کر یہاں وہاں

    کیا دیکھتے ہو راہ میں رک کر یہاں وہاں ہے قتل و خوں کا ایک سا منظر یہاں وہاں زیر نگیں اسی کے سبھی قریہ و دیار اس کے ہی سب ہیں خیمہ و لشکر یہاں وہاں ہے درمیان خنجر و سر فاصلے کا فرق ورنہ سروں پہ ہے وہی خنجر یہاں وہاں شیشے کے سب مکاں ہیں شکستہ ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں شہر میں پتھر ...

    مزید پڑھیے

    اگر چمن کا کوئی در کھلا بھی میرے لیے

    اگر چمن کا کوئی در کھلا بھی میرے لیے سموم بن گئی باد صبا بھی میرے لیے مرا سخن بھی ہوا اس کے نام سے موسوم عبث ہوا مرا اپنا کہا بھی میرے لیے یہی نہیں کہ وہ رستے سے موڑ کاٹ گیا نہ چھوڑا اس نے کوئی نقش پا بھی میرے لیے تعلقات کا رکھنا بھی توڑنا بھی محال عذاب جاں ہے یہ رسم وفا بھی میرے ...

    مزید پڑھیے

    وہ موت کا منظر جو تھا دن رات وہی ہے

    وہ موت کا منظر جو تھا دن رات وہی ہے منہ سے نہ کہو صورت حالات وہی ہے لفظوں کے الٹ پھیر سے بدلے گا نہ مطلب امداد جسے کہتے ہو خیرات وہی ہے گل کرنا چراغوں کا تو اک کھیل ہے اس کا واضح ہے پس پردۂ ظلمات وہی ہے زنجیر میں موسم کی ہیں جکڑے ہوئے دن رات سردی وہی گرمی وہی برسات وہی ہے ہم نے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تو خیر کوئی دوسرا اچھا نہیں لگتا

    ہمیں تو خیر کوئی دوسرا اچھا نہیں لگتا انہیں خود بھی کوئی اپنے سوا اچھا نہیں لگتا نہیں گر نغمۂ شادی نفیر غم سہی کوئی کہ ساز زندگانی بے صدا اچھا نہیں لگتا ہمیں یہ بند کمروں کا مکاں کچھ بھا گیا اتنا کہ ہم کو اب کوئی آنگن کھلا اچھا نہیں لگتا کچھ اتنی تلخ اس دن ہو گئی تھی گفتگو ان ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا

    کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا یہاں تلک کا سفر ہم نے پا پیادہ کیا جہاں پہ دیکھے قدم اپنے کچھ بھٹکتے ہوئے وہیں ٹھہر کے فروزاں چراغ بادہ کیا لباس بدلے نہیں ہم نے موسموں کی طرح کہ زیب تن جو کیا ایک ہی لبادہ کیا امیر شہر سبھی تھے شریک مشق ستم کسی نے کم تو کسی نے ستم زیادہ کیا ہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4