Mohsin Zaidi

محسن زیدی

معروف ترقی پسند شاعر / یوپی کے شہر بہرائچ میں پیدائش/ فراق کے شاگرد

Well-known progressive poet who hailed from Bahraich, a small town in UP, India.

محسن زیدی کی غزل

    ہر روز نیا حشر سر راہ گزر تھا

    ہر روز نیا حشر سر راہ گزر تھا اب تک کا سفر ایک قیامت کا سفر تھا اندازۂ حالات تھا پہلے ہی سے مجھ کو درپیش جو اب ہے وہ مرے پیش نظر تھا سنتے ہیں کہ آباد یہاں تھا کوئی کنبہ آثار بھی کہتے ہیں یہاں پر کوئی گھر تھا طے ہم نے کیا سارا سفر یک و تنہا جز گرد سفر کوئی نہ ہم راہ سفر تھا صد حیف ...

    مزید پڑھیے

    دکھا رہی ہے جہاں دھوپ اب اثر اپنا

    دکھا رہی ہے جہاں دھوپ اب اثر اپنا بکھیرتا تھا وہیں سایہ اک شجر اپنا پھلوں کا اب کے بھی پہلے سے ہو گیا سودا درخت چھو نہ سکیں گے کوئی ثمر اپنا بہت ہی تیز تھا خنجر ہوا کے ہاتھوں میں بچا سکا کوئی طائر نہ بال و پر اپنا کبھی جو سامنے آیا تو چھپ گیا ہوں کبھی یہ ایک کھیل رہا خود سے عمر ...

    مزید پڑھیے

    اس طرف سے اس طرف تک خشک و تر پانی میں ہے

    اس طرف سے اس طرف تک خشک و تر پانی میں ہے اب سمندر سے سمندر تک نظر پانی میں ہے میری آنکھوں میں ادھر منظر ہے اپنی موت کا اور کوئی ڈوبنے والا ادھر پانی میں ہے جانے کب میرے سمندر کو کوئی ساحل ملے کب سے میرا جسم سرگرم سفر پانی میں ہے کشتی انفاس زیر آب بھی ہے شعلہ بار تہہ بہ تہہ جیسے ...

    مزید پڑھیے

    جتنا تہذیب بدن سے میں سنورتا جاؤں

    جتنا تہذیب بدن سے میں سنورتا جاؤں اتنا ہی ٹوٹ کے اندر سے بکھرتا جاؤں زندگی جیسے کلنڈر پہ بدلتی تاریخ میں شب و روز کے مانند گزرتا جاؤں کیا پتا خوابوں کی تعبیر ملے یا نہ ملے کسی کاغذ پہ انہیں نوٹ ہی کرتا جاؤں صحن گلشن سے وہ اک آخری رشتہ بھی گیا خشک پتوں کی طرح اب تو بکھرتا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے

    یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے تم سیکھ کر یہ خوئے ستم گر کہاں سے آئے جب تھا محافظوں کی نگہبانیوں میں شہر قاتل فصیل شہر کے اندر کہاں سے آئے کیا پھر مجھے یہ اندھے کنویں میں گرائیں گے بن کر یہ لوگ میرے برادر کہاں سے آئے یہ دشت بے شجر ہی جو ٹھہرا تو پھر یہاں سایہ کسی شجر کا ...

    مزید پڑھیے

    نقش پانی پہ بنایا کیوں تھا

    نقش پانی پہ بنایا کیوں تھا جب بنایا تو مٹایا کیوں تھا گئے وقتوں کا ہے اب رونا کیوں آئے وقتوں کو گنوایا کیوں تھا بیٹھ جانا تھا اگر مثل غبار سر پہ طوفان اٹھایا کیوں تھا میری منزل نہ کہیں تھی تو مجھے دشت در دشت پھرایا کیوں تھا وہ نہ ہمدم تھا نہ دم ساز کوئی حال دل اس کو سنایا کیوں ...

    مزید پڑھیے

    امید کوئی نہیں آسرا بھی کوئی نہیں

    امید کوئی نہیں آسرا بھی کوئی نہیں دوا بھی کوئی نہیں اب دعا بھی کوئی نہیں کچھ اتنے ہو گئے بیزار اپنے حال سے لوگ کہ اپنے حال پہ اب سوچتا بھی کوئی نہیں بتائے کون وہاں کیا گزر گئی کس پر کہ اس دیار سے آیا گیا بھی کوئی نہیں حصار جاں کے وہ اس پار ہی تو رہتا ہے فقط ہے شرط سفر فاصلا بھی ...

    مزید پڑھیے

    چند لمحوں کے لئے انجمن آرائی تھی

    چند لمحوں کے لئے انجمن آرائی تھی پھر وہی میں تھا وہی رات کی تنہائی تھی چڑھتے سورج کی توجہ رہی ساری اس پار روشنی کی تو ادھر صرف جھلک آئی تھی اپنے دل میں بھی تھی تعمیر مکاں کی حسرت اپنی قسمت میں مگر بادیہ پیمائی تھی اپنے ہی بوجھ سے ہر ڈوبنے والا ڈوبا ورنہ طوفان سے کشتی تو نکل آئی ...

    مزید پڑھیے

    بسکہ دشوار ہے اس شخص کا چہرا لکھنا

    بسکہ دشوار ہے اس شخص کا چہرا لکھنا ورنہ مشکل تو نہیں کوئی سراپا لکھنا یہ بھی ممکن ہے کہ تحریر بدل دی جائے دوستو اپنا بیاں خون سے پختہ لکھنا کچھ ہمیں سیر و تماشا سے نہیں دلچسپی شغل بس اپنا ہے تنہائی میں پڑھنا لکھنا دل کا دروازہ تمہارے لئے وا رکھیں گے لوٹ آنے کا کبھی ہو جو ارادہ ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک حرف معانی کا ایک دفتر وہ

    میں ایک حرف معانی کا ایک دفتر وہ میں ایک موج‌ سراب جو سمندر وہ تمام ثابت و سیار اس کے حلقہ بگوش یہ کائنات ہے اک دائرہ تو محور وہ تمام مملکتیں اس کے ہی قلمرو میں سب اس کے زیر نگیں بحر و بر کا داور وہ سروں پہ اہل کرم کے ہے ابر رحمت کا ستم‌‌ گروں کے لئے قہر کا ہے لشکر وہ کہیں ہے دن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4