خواہش تخت و تاج اور ہے کچھ

خواہش تخت و تاج اور ہے کچھ
لیکن اپنا مزاج اور ہے کچھ


کیا بھروسا بدلتے موسم کا
رنگ کل کچھ تھا آج اور ہے کچھ


پاسداری یہاں نہیں چلتی
اس نگر کا رواج اور ہے کچھ


خوش نہ ہو ہم جو ہو گئے خاموش
صورت احتجاج اور ہے کچھ


کام چلتا نہیں ہے مرہم سے
زخم دل کا علاج اور ہے کچھ


سوچنا اور اداس ہو جانا
حال ہی دل کا آج اور ہے کچھ


اک زمانہ تھا ہم مزاج تھے ہم
اب تو اس کا مزاج اور ہے کچھ


شعر کہنا ہے ایک فن محسنؔ
دفتری کام کاج اور ہے کچھ