وہ موت کا منظر جو تھا دن رات وہی ہے

وہ موت کا منظر جو تھا دن رات وہی ہے
منہ سے نہ کہو صورت حالات وہی ہے


لفظوں کے الٹ پھیر سے بدلے گا نہ مطلب
امداد جسے کہتے ہو خیرات وہی ہے


گل کرنا چراغوں کا تو اک کھیل ہے اس کا
واضح ہے پس پردۂ ظلمات وہی ہے


زنجیر میں موسم کی ہیں جکڑے ہوئے دن رات
سردی وہی گرمی وہی برسات وہی ہے


ہم نے تو اسی طرح گزارے ہیں شب و روز
اپنے لیے ہر دن وہی ہر رات وہی ہے


کچھ میرے ہی مانند ہے طرز سخن اس کا
انداز اشارات و کنایات وہی ہے


دونوں ہی طرف آگ برابر کی ہے محسنؔ
دونوں ہی طرف گرمئ جذبات وہی ہے