کوئی بے وجہ کیوں خفا ہوگا

کوئی بے وجہ کیوں خفا ہوگا
کچھ تو اس کو برا لگا ہوگا


آگے جا کر ٹھہر گیا ہوگا
وہ مری راہ تک رہا ہوگا


چھوڑ آئے تھے ہم جلا کے جسے
وہ دیا کب کا بجھ گیا ہوگا


جب وہ آواز تھم گئی ہوگی
شب کا سناٹا بولتا ہوگا


کیسے معلوم ہو کہ آخر وقت
اس نے کیا کچھ کہا سنا ہوگا


کیوں ہوا تیز ابھی سے چلنے لگی
غنچہ کم کم ابھی کھلا ہوگا


لہجہ اس کا بھی کچھ تھا اپنا سا
وہ بھی اپنے دیار کا ہوگا


پہلا سجدہ جہاں کیا تھا وہیں
آخری سجدہ بھی ادا ہوگا


ہو نہ ہو منزل آ گئی محسنؔ
چند قوموں کا فاصلا ہوگا