Mohsin Ehsan

محسن احسان

پاکستان میں نئی غزل کے ممتاز شاعر

Prominent poet of New Ghazal in Pakistan

محسن احسان کی غزل

    چھپے ہوئے تھے جو دل میں وہ ڈر پرانے تھے

    چھپے ہوئے تھے جو دل میں وہ ڈر پرانے تھے کہ راستے تھے نئے ہم سفر پرانے تھے میں اڑ رہا تھا فضا میں اک احتیاط کے ساتھ مجھے خبر تھی مرے بال و پر پرانے تھے تمام شہر نئی روشنی میں تھا ملبوس مگر گھروں کے سبھی بام و در پرانے تھے مجھے تلاش ہمیشہ نئے چراغوں کی تھی کہ آسمانوں کے شمس و قمر ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ تشنہ بھی نہیں ہونٹ سوالی بھی نہیں

    آنکھ تشنہ بھی نہیں ہونٹ سوالی بھی نہیں یہ صراحی کہ بھری بھی نہیں خالی بھی نہیں ہم سخی درہم و دینار لئے پھرتے ہیں شہر نادار میں اب کوئی سوالی بھی نہیں کیوں گرانے کے لئے درپئے آزار ہیں لوگ ہم نے بنیاد مکاں کی ابھی ڈالی بھی نہیں ایسی مکروہ کہانی کی یہ تصویر ہے جو سننے والی بھی ...

    مزید پڑھیے

    دکھوں کے دشت غموں کے نگر میں چھوڑ آئے

    دکھوں کے دشت غموں کے نگر میں چھوڑ آئے وہ ہم سفر کہ جنہیں ہم سفر میں چھوڑ آئے بہت جمیل سی یادوں کو ساتھ لے آئے بہت ملول سے چہروں کو گھر میں چھوڑ آئے بڑے قرینے سے ہم آ گئے کنارے پر بڑے سلیقے سے کشتی بھنور میں چھوڑ آئے کس اہتمام سے اب تک پکارتی ہیں ہمیں وہ چاہتیں جنہیں دیوار و در ...

    مزید پڑھیے

    سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں

    سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں غم زمانہ لگا ایسا تازیانہ ہمیں امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں جہاں سے ساتھ زمانے کو لے کے چلنا تھا وہیں پہ چھوڑ گئی گردش زمانہ ہمیں ہر ایک سمت کھڑی ہیں بلند دیواریں تمام شہر نظر آئے قید خانہ ہمیں ملوک ہم ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے آپ سے یہ گلہ عمر بھر کیا

    خود اپنے آپ سے یہ گلہ عمر بھر کیا کیسے ترے فراق کا موسم بسر کیا منقار سے ہوا نے لکھی داستان ہجر یوں حرف معتبر کو بھی نا معتبر کیا کیسی ہوا چلی کہ معاً بارشوں کے بعد ہر بے گلاب رت نے گلستاں میں گھر کیا خود ہم نے کاٹ کاٹ دی زنجیر سانس کی خود ہم نے زندگی کا سفر مختصر کیا بے آب ...

    مزید پڑھیے

    تیرگی ہے صحن میں تابندگی دیوار پر

    تیرگی ہے صحن میں تابندگی دیوار پر آئنے جڑتی رہی ہے زندگی دیوار پر سب جلال منصبی سیل فنا لے جائے گا لاکھ ہم لکھتے رہیں پائندگی دیوار پر ظلمتیں امڈیں کچھ ایسے کھا گئیں حرفوں کا نور خون دل سے کی تھی کچھ رخشندگی دیوار پر بام و در کو دیکھتی رہتی ہیں میری حسرتیں کون چسپاں کر گیا ...

    مزید پڑھیے

    کیسے کہیں در بدر نہیں ہم

    کیسے کہیں در بدر نہیں ہم گھر میں بھی ہیں اور گھر نہیں ہم جو راہ میں ساتھ چھوڑ جائیں ایسوں کے تو ہم سفر نہیں ہم اپنوں کی کوئی خبر نہ رکھیں اتنے بھی تو بے خبر نہیں ہم اٹھ جائے کب اپنا آب و دانہ انساں ہیں کوئی خضر نہیں ہم دیکھیں نہ اٹھا کے آنکھ اس کو ایسے بھی تو کم نظر نہیں ہم سچ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اندر سے جو باہر نکلے

    اپنے اندر سے جو باہر نکلے خود نمائی کا سمندر نکلے اب سزائیں ہی مقدر ٹھہریں تازیانوں کے ثناگر نکلے ایسے بھی لوگ ہیں اس شہر میں جو دھوپ میں برف پہن کر نکلے فاختاؤں کا تمسخر توبہ چیونٹیوں کے بھی عجب پر نکلے ہاتھ جب قبضۂ شمشیر پہ ہو کیوں نہ مقتل میں دلاور نکلے کھینچ دو دار پہ ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں کا خریدار ڈھونڈنے نکلا

    محبتوں کا خریدار ڈھونڈنے نکلا خدا خود آج گنہ گار ڈھونڈنے نکلا کچھ اس قدر تھا اندھیرا کہ صبح کا سورج ہمارے کوچہ و بازار ڈھونڈنے نکلا مری طرح کی فراست ہے کس کے پاس کہ میں جو شہر ہو گیا مسمار ڈھونڈنے نکلا بدن کی دھوپ نے وہ حال کر دیا ہے کہ میں ردائے سایۂ اشجار ڈھونڈنے نکلا عجیب ...

    مزید پڑھیے

    بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی

    بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی مگر چراغ میں کچھ روشنی انا کی تھی مری شکست میں کیا کیا تھے مضمرات نہ پوچھ عدو کا ہاتھ تھا اور چال آشنا کی تھی فقیہ شہر نے بے زار کر دیا ورنہ دلوں میں قدر بہت خانۂ خدا کی تھی ابھی سے تم نے دھواں دار کر دیا ماحول ابھی تو سانس ہی لینے کی ابتدا کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5