Mohsin Aftab Kelapuri

محسن آفتاب کیلاپوری

محسن آفتاب کیلاپوری کی غزل

    ہمارے دل میں یادوں کو سلیقے سے رکھا جائے

    ہمارے دل میں یادوں کو سلیقے سے رکھا جائے کہ اس کمرے میں پھولوں کو سلیقے سے رکھا جائے مسیحائی کی پھر کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی اگر زخموں پہ اشکوں کو سلیقے سے رکھا جائے دلوں کی حکمرانی کا یہ اک اچھا طریقہ ہے ہر اک جملے میں لفظوں کو سلیقے سے رکھا جائے ادب ہے دین و دنیا ہے چھپا ہے ...

    مزید پڑھیے

    جس طرح دھوپ کا رنگت پہ اثر پڑتا ہے

    جس طرح دھوپ کا رنگت پہ اثر پڑتا ہے نفس کا ویسے عبادت پہ اثر پڑتا ہے ایسے مجھ پر بھی ترے غم کے نشاں دکھتے ہیں جیسے موسم کا عمارت پہ اثر پڑتا ہے صرف ماحول سے فکریں نہیں بدلا کرتیں دوستوں کا بھی طبیعت پہ اثر پڑتا ہے دشمنوں سے ہی نہیں ہوتا ہے خطرہ لاحق باغیوں سے بھی حکومت پہ اثر ...

    مزید پڑھیے

    نظر کو بھائے جو منظر پہن کے نکلا ہے

    نظر کو بھائے جو منظر پہن کے نکلا ہے دھنک وہ اپنے بدن پر پہن کے نکلا ہے میں آئنہ ہوں مگر پتھروں سے کہہ دینا اک آئنہ ہے جو پتھر پہن کے نکلا ہے وہ اپنی آنکھ کی عریانیت چھپانے کو حیا کی آنکھ پہ چادر پہن کے نکلا ہے چھپا کے رکھتا تو تو بھی ہوس سے بچ جاتا مگر تو حسن کا زیور پہن کے نکلا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نیا کام نئے طور سے کرنے کے لیے

    کچھ نیا کام نئے طور سے کرنے کے لیے لوگ موقع ہی نہیں دیتے سدھرنے کے لیے جاؤ جا کر کے غریبوں کے دلوں میں جھانکو کتنی بے چین تمنائیں ہیں مرنے کے لیے اس پہ مرتے ہو تو پھر دنیا کی پروا کیسی عشق ہوتا ہے میاں حد سے گزرنے کے لیے کوئی آسانی سے فن کار نہیں بنتا ہے مدتیں چاہیے اک فن کو ...

    مزید پڑھیے

    رہ کے مکاروں میں مکار ہوئی ہے دنیا

    رہ کے مکاروں میں مکار ہوئی ہے دنیا میرے دشمن کی طرف دار ہوئی ہے دنیا پاک دامن تھی یہ جب تک تھی مرے حجرے میں چھوڑ کے مجھ کو گنہ گار ہوئی ہے دنیا عین ممکن ہے کے بد نام مجھے بھی کر دے میری شہرت سے جو بیزار ہوئی ہے دنیا تو نہیں تھا تو یہ رونق بھی کہاں تھی پہلے تیرے آنے سے ہی گل زار ...

    مزید پڑھیے

    درد دے گی خون کے آنسو رلائے گی مجھے

    درد دے گی خون کے آنسو رلائے گی مجھے زندگی تو اور کس حد تک ستائے گی مجھے بھوک سے بے حال میں بھی ایک دن ہو جاؤں گا ایک دن یہ بے بسی در در پھرائے گی مجھے میں چلا جاؤں گا جس دن آسمانوں کی طرف دیکھنا رو رو کے یہ دنیا بلائے گی مجھے اک یہی تو بات اس کی ہے مجھے بے حد پسند روٹھ جاؤں میں تو ...

    مزید پڑھیے

    جسم میں خوں کی روانی کا مزہ آئے گا

    جسم میں خوں کی روانی کا مزہ آئے گا عشق ہوتے ہی جوانی کا مزہ آئے گا جوش گفتار میں کچھ اور بڑھا لو اپنے تب ہی کچھ شعلہ بیانی کا مزہ آئے گا آج ہم دونوں نہائیں گے بڑی شدت سے آج برسات کے پانی کا مزہ آئے گا بارشیں وقت پہ کھیتوں کو ہرا کر دیں تو سب کسانوں کو کسانی کا مزہ آئے گا آج تو ...

    مزید پڑھیے

    تان کر سینے کو چلنے ہی نہیں دیتی مجھے

    تان کر سینے کو چلنے ہی نہیں دیتی مجھے بزدلی گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتی مجھے کوششیں اپنی طرف سے کر کے میں نے دیکھ لیں زندگی لیکن سنبھلنے ہی نہیں دیتی مجھے ہونٹ پر تالے لگا کر چھین لیتی ہے قلم زہر دل دنیا اگلنے ہی نہیں دیتی مجھے سوچتا ہوں میں بھی ہو جاؤں زمانے کی طرح پر مری فطرت ...

    مزید پڑھیے

    میں نے یہ جب سنا تو مرا دل دہل گیا

    میں نے یہ جب سنا تو مرا دل دہل گیا سورج کا جسم آگ کی لپٹوں سے جل گیا موسم نے ایسی آگ لگائی تھی رات میں میرے بدن میں خون تھا جتنا ابل گیا سوکھے لبوں کی پیاس بجھانے کے واسطے کل رات چاند برف کی صورت پگھل گیا منظر عجب یہ دیکھ کے حیرت زدہ ہیں پھول شبنم کا پاؤں دھوپ کی شدت سے جل ...

    مزید پڑھیے

    بشیرؔ بدرؔ کی غزلیں سنا رہا تھا میں

    بشیرؔ بدرؔ کی غزلیں سنا رہا تھا میں کل آسماں کو زمیں پر بلا رہا تھا میں گزر رہا تھا میں جب میکدے کی راہوں سے جگر کے ہاتھ سے دامن بچا رہا تھا میں یہ بات سب کو بتائی تھی مرزا غالب نے بہار گھر میں تھی صحرا اڑا رہا تھا میں تمہاری یاد بھی چپکے سے آ کے بیٹھ گئی غزل جو میرؔ کی اک گنگنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2