میں نے یہ جب سنا تو مرا دل دہل گیا

میں نے یہ جب سنا تو مرا دل دہل گیا
سورج کا جسم آگ کی لپٹوں سے جل گیا


موسم نے ایسی آگ لگائی تھی رات میں
میرے بدن میں خون تھا جتنا ابل گیا


سوکھے لبوں کی پیاس بجھانے کے واسطے
کل رات چاند برف کی صورت پگھل گیا


منظر عجب یہ دیکھ کے حیرت زدہ ہیں پھول
شبنم کا پاؤں دھوپ کی شدت سے جل گیا


تعبیر کی ہتھیلیاں پیلی نہ ہو سکیں
اک خوف میرے خواب کے سر کو کچل گیا


پرچھائیوں نے عکس کے کپڑے پہن لیے
آئینہ جب سے سنگ کے پیکر میں ڈھل گیا


کیسے بتائیں تجھ کو کہ تیری تلاش میں
سایہ ہمارے جسم کا پیدل نکل گیا


ہونٹوں سے تیرے لفظوں کے بادل برس گئے
خاموشیوں کا دشت سکوں تھا جو جل گیا


جلتے ہوئے چراغ پہ جوں ہی نظر پڑی
کچھ سر پھری ہواؤں کا لہجہ بدل گیا