Mohammad Salahuddin Taskeen

محمد صلاح الدین تسکین

محمد صلاح الدین تسکین کی غزل

    لمحۂ زیست خواب جیسا ہے

    لمحۂ زیست خواب جیسا ہے آدمی اک حباب جیسا ہے جس کو دریا سمجھ رہے ہو تم وہ چمکتا سراب جیسا ہے میرے آنگن میں کھیلتا بچہ ایک تازہ گلاب جیسا ہے میری آنکھوں میں ہے یہ گنگا جل میرا دل بھی چناب جیسا ہے مسئلہ زندگی کی تختی پر ایک الجھا حساب جیسا ہے جس کو تسکینؔ لوگ کہتے ہیں وہ تو خانہ ...

    مزید پڑھیے

    برسوں سے خیالوں میں اک چھوٹی کہانی ہے

    برسوں سے خیالوں میں اک چھوٹی کہانی ہے ہر بات نئی لیکن اک بات پرانی ہے افسانہ تباہی کا لفظوں میں لکھوں کیوں کر کچھ کہتا ہوں آنکھوں سے کچھ دل کی زبانی ہے اک روپ سمایا ہے جس دن سے خیالوں میں ہر دن ہے حسیں میرا ہر رات سہانی ہے دولت یہ ملی مجھ کو حالات کے ہاتھوں سے ایک زخم پرانا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دل کے قریب تھا پہلے

    کوئی دل کے قریب تھا پہلے کتنا اونچا نصیب تھا پہلے سادگی میں فریب کھائے تھے حال اپنا عجیب تھا پہلے آج لگتے ہیں سب رفیق مجھے سارا عالم رقیب تھا پہلے اونچے محلوں میں آج رہتا ہے گرچہ بے حد غریب تھا پہلے آج بھی دوست وہ نہیں میرا کون کس کا حبیب تھا پہلے گردش وقت نے کیا خاموش ورنہ ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پہ عیاں کرب کا منظر نہیں دیکھا

    چہرے پہ عیاں کرب کا منظر نہیں دیکھا لوگوں نے مرے دل میں اتر کر نہیں دیکھا موجوں کے تھپیڑوں کی اسے کیسے خبر ہو صحرا کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا پستی میں جو لے آئی مجھے گردش دوراں اونچائی پہ پھر اپنا مقدر نہیں دیکھا کیوں ٹینک سے توپوں سے ڈراتے ہو ہمیشہ کیا تم نے ابابیلوں کا ...

    مزید پڑھیے

    عیاں ہم اپنے خیالات کر کے دیکھتے ہیں

    عیاں ہم اپنے خیالات کر کے دیکھتے ہیں اگر وہ چپ ہیں تو ہم بات کر کے دیکھتے ہیں کبھی تو ان کی خموشی کا راز افشا ہو نظر سے آج سوالات کر کے دیکھتے ہیں کئی دنوں سے وہ ملتے نہیں ہیں ہم سے مگر قدم بڑھا کے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں نصیب اپنا کبھی تو چمک بھی سکتا ہے کہیں پہ دن تو کہیں رات کر ...

    مزید پڑھیے