عیاں ہم اپنے خیالات کر کے دیکھتے ہیں
عیاں ہم اپنے خیالات کر کے دیکھتے ہیں
اگر وہ چپ ہیں تو ہم بات کر کے دیکھتے ہیں
کبھی تو ان کی خموشی کا راز افشا ہو
نظر سے آج سوالات کر کے دیکھتے ہیں
کئی دنوں سے وہ ملتے نہیں ہیں ہم سے مگر
قدم بڑھا کے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں
نصیب اپنا کبھی تو چمک بھی سکتا ہے
کہیں پہ دن تو کہیں رات کر کے دیکھتے ہیں
یہاں جو دھوپ ہے نفرت کی ہر طرف تسکینؔ
چلو کہ پیار کی برسات کر کے دیکھتے ہیں