برسوں سے خیالوں میں اک چھوٹی کہانی ہے

برسوں سے خیالوں میں اک چھوٹی کہانی ہے
ہر بات نئی لیکن اک بات پرانی ہے


افسانہ تباہی کا لفظوں میں لکھوں کیوں کر
کچھ کہتا ہوں آنکھوں سے کچھ دل کی زبانی ہے


اک روپ سمایا ہے جس دن سے خیالوں میں
ہر دن ہے حسیں میرا ہر رات سہانی ہے


دولت یہ ملی مجھ کو حالات کے ہاتھوں سے
ایک زخم پرانا ہے اک درد نہانی ہے


ارمانوں کے میلے میں جو درد ملا مجھ کو
تسکینؔ سمجھتا ہوں الفت کی نشانی ہے