لمحۂ زیست خواب جیسا ہے

لمحۂ زیست خواب جیسا ہے
آدمی اک حباب جیسا ہے


جس کو دریا سمجھ رہے ہو تم
وہ چمکتا سراب جیسا ہے


میرے آنگن میں کھیلتا بچہ
ایک تازہ گلاب جیسا ہے


میری آنکھوں میں ہے یہ گنگا جل
میرا دل بھی چناب جیسا ہے


مسئلہ زندگی کی تختی پر
ایک الجھا حساب جیسا ہے


جس کو تسکینؔ لوگ کہتے ہیں
وہ تو خانہ خراب جیسا ہے