کوئی دل کے قریب تھا پہلے
کوئی دل کے قریب تھا پہلے
کتنا اونچا نصیب تھا پہلے
سادگی میں فریب کھائے تھے
حال اپنا عجیب تھا پہلے
آج لگتے ہیں سب رفیق مجھے
سارا عالم رقیب تھا پہلے
اونچے محلوں میں آج رہتا ہے
گرچہ بے حد غریب تھا پہلے
آج بھی دوست وہ نہیں میرا
کون کس کا حبیب تھا پہلے
گردش وقت نے کیا خاموش
ورنہ تسکیںؔ نقیب تھا پہلے