چہرے پہ عیاں کرب کا منظر نہیں دیکھا
چہرے پہ عیاں کرب کا منظر نہیں دیکھا
لوگوں نے مرے دل میں اتر کر نہیں دیکھا
موجوں کے تھپیڑوں کی اسے کیسے خبر ہو
صحرا کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
پستی میں جو لے آئی مجھے گردش دوراں
اونچائی پہ پھر اپنا مقدر نہیں دیکھا
کیوں ٹینک سے توپوں سے ڈراتے ہو ہمیشہ
کیا تم نے ابابیلوں کا لشکر نہیں دیکھا
دیوالی مناتے رہے تسکینؔ سبھی لوگ
افسوس مرا جلتا ہوا گھر نہیں دیکھا