Mohammad Naim Jawed Naim

محمد نعیم جاوید نعیم

محمد نعیم جاوید نعیم کی غزل

    اس زمیں پر اس کا مسکن اس کا گھر لگتا نہ تھا

    اس زمیں پر اس کا مسکن اس کا گھر لگتا نہ تھا اس قدر وہ خوب صورت تھا بشر لگتا نہ تھا ہجر کا مقتل ہو یا سولی وصال یار کی اک زمانہ تھا کسی سے کوئی ڈر لگتا نہ تھا جس قدر میں تھک گیا تھا اس کو طے کرتے ہوئے دیکھنے میں اس قدر لمبا سفر لگتا نہ تھا دور مجھ سے کر دیا کتنا اناؤں نے اسے میرے ...

    مزید پڑھیے

    مرے بچے مجھے میری بقا کے استعارے ہیں

    مرے بچے مجھے میری بقا کے استعارے ہیں یہ میری زندگی کے چاند سورج اور تارے ہیں یہ ہم نے کب کہا ہے تم ہمارے ہی ہمارے ہو یقیناً یہ کہا ہے ہم تمہارے ہی تمہارے ہیں عجب اک سلسلہ ہے آگ پانی کا مرے اندر مری آنکھیں کہ دریا ہیں مری سانسیں شرارے ہیں کہا تو ہے خوشی تیری تو غم سارے محبت ...

    مزید پڑھیے

    حریم ذات کی ہر رت منائے میرے لیے

    حریم ذات کی ہر رت منائے میرے لیے وہ روئے میرے لیے مسکرائے میرے لیے زمانہ اس کو ہمیشہ لگائے زخم پہ زخم زمانہ اس کو ہمیشہ ستائے میرے لیے میں شہر چھوڑ کے جانے کی جب بھی بات کروں وہ ہاتھ جوڑ کے مجھ کو منائے میرے لیے اسے کہو ہے محبت میں شرک کفر عظیم وہ اپنا آپ بھی اب بھول جائے میرے ...

    مزید پڑھیے

    ناروا تھا نا مناسب تھا مگر اچھا لگا

    ناروا تھا نا مناسب تھا مگر اچھا لگا بے وفا اک دشمنوں کی پشت پر اچھا لگا وہ اچانک لوٹ آیا توڑ کر رسم فراق گرمیوں میں سرد موسم کا ثمر اچھا لگا لگ گئی شاید مجھے آوارگی کی بد دعا لوٹ کر اب کے میں آیا ہوں تو گھر اچھا لگا ہر کسی سے ہنس کے ملنا خوش دلی سے بولنا میرا دشمن ہے مگر اس کا ہنر ...

    مزید پڑھیے

    سچ زبانوں پر ہو تو شانوں پہ سر رہتے نہیں

    سچ زبانوں پر ہو تو شانوں پہ سر رہتے نہیں پتھروں کے شہر میں شیشے کے گھر رہتے نہیں چھوڑ کر مجھ کو چلا ہے تو پتا ہوگا اسے ریگ زاروں میں کبھی نازک شجر رہتے نہیں چند لمحوں کے لیے ملنا ہے بس ان کا نصیب دیر تک شب اور سورج ہم سفر رہتے نہیں کوئی کتنا بھی ہو پیارا ہو ہی جاتا ہے جدا زخم ...

    مزید پڑھیے

    میرا افسانہ جدا تیری کہانی اور ہے

    میرا افسانہ جدا تیری کہانی اور ہے غم کا راجہ اور ہے خوشیوں کی رانی اور ہے فرق لہجوں کا ہوا کرتا ہے لفظوں کا نہیں ہے الگ شعلہ فشانی خوش بیانی اور ہے میں تو اس کے بس میں ہوں مدت سے ہوں اس کا اسیر جیت ہے تازہ کوئی یہ کامرانی اور ہے نام لے کر جس طرح اس نے پکارا ہے مجھے اس کے اس لہجے ...

    مزید پڑھیے

    وہ حرف و نقش سے خالی کتاب مانگتا ہے

    وہ حرف و نقش سے خالی کتاب مانگتا ہے سوال کرتا نہیں ہے جواب مانگتا ہے میں سارا سال ہی رکھتا ہوں اپنے زخم ہرے وہ سارا سال ہی تازہ گلاب مانگتا ہے میں ریزہ ریزہ اسے ٹوٹ کر دکھاتا ہوں وہ لمحے لمحے کا مجھ سے حساب مانگتا ہے سنا ہے اس کی محبت ہے ماورائے حیات سو سارا شہر ہی مرنے کے خواب ...

    مزید پڑھیے

    جدائی کے الم سہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

    جدائی کے الم سہنا مجھے اچھا نہیں لگتا کسی کو الوداع کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا محبت کے مراحل ہوں یا میدان عداوت ہو کبھی جذبات میں بہنا مجھے اچھا نہیں لگتا وہ اتنا خوب صورت ہے کہ اس کے جسم پر سج کر کوئی زیور کوئی گہنا مجھے اچھا نہیں لگتا سنو منظور ہیں اب تو مجھے نا حق سزائیں ...

    مزید پڑھیے

    زخم بھر جائے تو پھر درد کہاں رہتا ہے

    زخم بھر جائے تو پھر درد کہاں رہتا ہے اجڑی بستی میں کوئی فرد کہاں رہتا ہے رنگ ہر شام جدائی کا جدا ہوتا ہے سرد موسم بھی سدا سرد کہاں رہتا ہے جان دینے کی جگہ جان نہ دے پائے تو اپنے پاؤں پہ کھڑا مرد کہاں رہتا ہے دشمن جاں ہے تو اک روز اسے کھلنا ہے کوئی لشکر ہو پس گرد کہاں رہتا ہے دل ...

    مزید پڑھیے

    پھول میری ذات کے صحراؤں میں بو جائے گا

    پھول میری ذات کے صحراؤں میں بو جائے گا آنے والی بارشوں میں وہ مرا ہو جائے گا وہ تو اک درویش ہے شہر وفا کی خاک پر ہجر کی اوڑھے گا چادر چین سے سو جائے گا کوئی بھی مرتا نہیں ہے مرنے والے کے لیے وہ بھی سب کے ساتھ آئے گا مجھے رو جائے گا چاند تاروں کی محبت زیب دیتی ہے اسے بس یہ خدشہ ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2