اس زمیں پر اس کا مسکن اس کا گھر لگتا نہ تھا
اس زمیں پر اس کا مسکن اس کا گھر لگتا نہ تھا
اس قدر وہ خوب صورت تھا بشر لگتا نہ تھا
ہجر کا مقتل ہو یا سولی وصال یار کی
اک زمانہ تھا کسی سے کوئی ڈر لگتا نہ تھا
جس قدر میں تھک گیا تھا اس کو طے کرتے ہوئے
دیکھنے میں اس قدر لمبا سفر لگتا نہ تھا
دور مجھ سے کر دیا کتنا اناؤں نے اسے
میرے شانوں پر لگا میرا ہی سر لگتا نہ تھا
کر رہا تھا جس طرح سچی محبت کی تلاش
آنے والے موسموں سے بے خبر لگتا نہ تھا
وہ تو اس نے چھو لیا اک دن محبت سے مجھے
ورنہ مجھ پر پھول کھلتے تھے ثمر لگتا نہ تھا
جس قدر بدنام تھا شہر وفا میں وہ نعیمؔ
بے وفا پہلی نظر میں اس قدر لگتا نہ تھا