زخم بھر جائے تو پھر درد کہاں رہتا ہے
زخم بھر جائے تو پھر درد کہاں رہتا ہے
اجڑی بستی میں کوئی فرد کہاں رہتا ہے
رنگ ہر شام جدائی کا جدا ہوتا ہے
سرد موسم بھی سدا سرد کہاں رہتا ہے
جان دینے کی جگہ جان نہ دے پائے تو
اپنے پاؤں پہ کھڑا مرد کہاں رہتا ہے
دشمن جاں ہے تو اک روز اسے کھلنا ہے
کوئی لشکر ہو پس گرد کہاں رہتا ہے
دل میں آئی ہو اگر سرخ گلابوں کی بہار
رنگ چہروں کا بھلا زرد کہاں رہتا ہے
جسم سارا ہے مسیحائی کا طالب اب تو
اک جگہ جم کے ترا درد کہاں رہتا ہے
دل پہ دنیا کی محبت کا ہو قبضہ تو نعیمؔ
آدمی اپنا بھی ہمدرد کہاں رہتا ہے