پھول میری ذات کے صحراؤں میں بو جائے گا
پھول میری ذات کے صحراؤں میں بو جائے گا
آنے والی بارشوں میں وہ مرا ہو جائے گا
وہ تو اک درویش ہے شہر وفا کی خاک پر
ہجر کی اوڑھے گا چادر چین سے سو جائے گا
کوئی بھی مرتا نہیں ہے مرنے والے کے لیے
وہ بھی سب کے ساتھ آئے گا مجھے رو جائے گا
چاند تاروں کی محبت زیب دیتی ہے اسے
بس یہ خدشہ ہے خلاؤں میں کہیں کھو جائے گا
وہ اگر برسے تو ساری گرد دشت ہجر کی
ایک پل میں تیز بارش کی طرح دھو جائے گا
ایک کا بن کر رہے گا تو زمانہ ہے نعیمؔ
بے وفا جس دن ہوا لمحوں کا وہ ہو جائے گا