مرے بچے مجھے میری بقا کے استعارے ہیں

مرے بچے مجھے میری بقا کے استعارے ہیں
یہ میری زندگی کے چاند سورج اور تارے ہیں


یہ ہم نے کب کہا ہے تم ہمارے ہی ہمارے ہو
یقیناً یہ کہا ہے ہم تمہارے ہی تمہارے ہیں


عجب اک سلسلہ ہے آگ پانی کا مرے اندر
مری آنکھیں کہ دریا ہیں مری سانسیں شرارے ہیں


کہا تو ہے خوشی تیری تو غم سارے محبت کے
ہمارے ہیں ہمارے ہیں ہمارے ہیں ہمارے ہیں


ہمارے پاس وہ اجڑا ہوا ہر بار ہی آیا
لب و رخسار و عارض بارہا اس کے سنوارے ہیں


ہے قیمت ان دنوں جوبن پہ پندار مراسم کی
سو گروی رکھ کے جسم و جاں کو یہ قرضے اتارے ہیں


نعیمؔ اس کو مبارک باد اس کی جیت پر دل سے
اسے یہ کیا پتا ہے کس طرح ہم اس سے ہارے ہیں