مشہور جہاں ہے داستان شیریں
مشہور جہاں ہے داستان شیریں شیریں نے فدا کی شہ پہ جان شیریں شبیر کی ہے وعدہ وفائی کا بیاں گویا مرے منہ میں ہے زبان شیریں
مشہور جہاں ہے داستان شیریں شیریں نے فدا کی شہ پہ جان شیریں شبیر کی ہے وعدہ وفائی کا بیاں گویا مرے منہ میں ہے زبان شیریں
اے خضر کے رہبر مجھے گمراہ نہ کر ممنوں گدا دلوں کا یا شاہ نہ کر روباہ کی طرح چھپتے ہیں ارباب دول یا شیر خدا سائل کو روباہ نہ کر
اس در پہ ہر ایک شادماں رہتا ہے خنداں گل امید یہاں رہتا ہے ہر فصل میں دست افتخارالدولہ نیساں کی طرح گہر فشاں رہتا ہے
پھر چرخ پر آسمان پیر آیا ہے ہر کوچہ میں وقت دار و گیر آیا ہے اگلا سا نہ مجمع ہے نہ اگلے سے وہ لوگ یاں آن کے حیرت میں دبیرؔ آیا ہے
ہم شان نجف نہ عرش انور ٹھہرا میزان میں یہ بھاری وہ سبک تر ٹھہرا اس پلے میں تھا نجف اور اس پلے میں عرش پہنچا وہ فلک پہ یہ زمیں پر ٹھہرا
کیا قامت احمد نے ضیا پائی ہے چہرے میں عجب نور کی زیبائی ہے مصحف پہ نہ کیوں فخر ہو اس صورت کو قرآن سے پہلے یہ کتاب آئی ہے
آفاق سے استاد یگانہ اٹھا مضموں کے جواہر کا خزانہ اٹھا انصاف کا نوحہ ہے یہ بالائے زمیں سرتاج فصیحان زمانہ اٹھا
فرمان علی لوح و قلم تک پہنچا فضل ان کا ہر ایک غم میں ہم تک پہنچا ہاتھ اس کے لگا پارس ایماں سر دست سر جس کا یداللہ کے قدم تک پہنچا
ادنیٰ سے جو سر جھکائے اعلیٰ وہ ہے جو خلق سے بہرہ ور ہے دریا وہ ہے کیا خوب دلیل ہے یہ خوبی کی دبیرؔ سمجھے جو برا آپ کو اچھا وہ ہے