صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے
صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے آخر ہوئی بیمار تپ ہجراں سے تبدیر کی جا نوش کیا زہر اجل پاشوئی کے بدلے ہاتھ دھوئے جاں سے
صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے آخر ہوئی بیمار تپ ہجراں سے تبدیر کی جا نوش کیا زہر اجل پاشوئی کے بدلے ہاتھ دھوئے جاں سے
ہر چشم سے چشمے کی روانی ہو جائے پھر تازہ مری مرثیہ خوانی ہو جائے فضل باری سے ہوں یہ آنسو جاری ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
آہوں سے عیاں برق فشانی ہو جائے غل رعد کا نالوں کی زبانی ہو جائے اشکوں سے جھڑی لگے وہ شہ کے غم کی ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
اعدا کو ادھر حرام کا مال ملا حرؔ کو اسداللہ کا ادھر لال ملا واللہ کلاہ سر عالم ہوا حرؔ حلہ ملا معصومہ کا رومال ملا
اس بزم میں ارباب شعور آئے ہیں یہ شیعہ ہیں یا آیۂ نور آئے ہیں پڑھ مرثیہ لے داد سخن ان سے دبیرؔ کیا کیا حضرات کانپور آئے ہیں
درگاہ علم دار سے بہبودی ہے بیماری کو واں شفائے خوشنودی ہے ہم مرتبۂ کربلا ہے درگاہ جلیل واں خاک شفا ہے اور یہاں اودی ہے
پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے عالم میں ہر ایک کو تگ و دو تیری ہے مصباح و نجوم آفتاب و مہتاب جس نور کو دیکھتا ہوں ضو تیری ہے
یا شاہ نجف تھام لو اس کشور کو آباد رکھو اہل عزا کے گھر کو یوں کھودو مخالف کے عمل کی بنیاد جس طرح اکھاڑا ہے در خیبر کو
اس بزم کو جنت سے جو خوش پاتے ہیں رضواں لیے گلدستہ نور آتے ہیں کیا صحن ہے گلشن عزائے شبیر پانی یہاں خضر آ کے چھڑک جاتے ہیں
ہے رزم سراپا تو زباں اور ہی ہے اور بین کے مابین بیاں اور ہی ہے کس درجہ بلند ہے تیری فکر دبیرؔ کہتی ہے زمیں یہ آسماں اور ہی ہے