اونچا مکان
بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے ہوئے استادہ ہے تعمیر کا اک نقش عجیب اے تمدن کے نقیب! تیری صورت ہے مہیب! ذہن انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی مجھے دیتے ہیں مگر ان میں اک جوش ہے بیداد کا فریاد کا اک عکس دراز اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے کیا کوئی ...