ایک تضاد
کوہ سے زریں اذیت کے گزر جانے کے بعد
سرخ نغمہ شام کا اک پل میں مر جانے کے بعد
ہاں پس از فریاد و قلب دہر کی لرزش کے بعد
دن کی تم آلود زرد و لالہ گوں کاوش کے بعد
تیرگی کے داغ دل سے کس طرح دھوؤں گا میں
جاگتے ہی جاگتے پھر صبح تک روؤں گا میں
ہاں وہی میں دن کو جس کی آنکھ تھی اور آفتاب
ہاں وہی میں جس نے دیکھا دہر لبریز حیات
ذہن انسانی مرا کہتا ہے کھا کر پیچ و تاب
دیکھ لے حسن مناظر کو نہیں حاصل ثبات
قلب میخانے کی ہا و ہو کا عادی ہے مرا
کچھ تعلق ہی نہیں مجھ کو سکون سنگ سے
مجھ کو خوش آتی نہیں ہے امن کی شب گوں فضا
روح کو تسکیں ملے گی ایک پیہم جنگ سے