Kumar Pashi

کمار پاشی

ممتاز جدید شاعر،رسالہ "سطور" کے مدیر

Prominent modernist poet who also edited a literary Magazine 'Satoor'

کمار پاشی کی نظم

    گواہی دے رہا ہوں میں

    گواہی دے رہا ہوں، اب سے کچھ پہلے جنوبی شہر کے اس پار میں دیکھا گیا تھا اب جہاں پر خشک پیڑوں کے گھنے جنگل ہیں، سونے تنگ رستے جھاڑیاں ہیں اور لمبے زرد، جالی دار پتوں میں ہوائیں سرسراتی ہیں گواہی دے رہا ہوں، اب سے کچھ پہلے، جو اپنے ہی لہو میں ڈوبتا دیکھا گیا تھا، وہ کوئی مفرور قیدی ...

    مزید پڑھیے

    سوگندھی

    اک موسم مرے دل کے اندر اک موسم مرے باہر اک رستہ مرے پیچھے بھاگے اک رستہ مرے آگے بیچ میں چپ چپ کھڑی ہوں جیسے بوجھی ہوئی بجھارت کس کو دوش دوں، جانے مجھ کو کس نے کیا اکارت آئینہ دیکھوں، بال سنواروں لب پہ ہنسی سجاؤں گلا سڑا وہی گوشت کہ جس پر بیٹھی رنگ چڑھاؤں جانے کتنی برف پگھل ...

    مزید پڑھیے

    خواب تماشا(1)

    یہ تانبے کا آکاش اجالے سے خالی اور یہ لوہے کے شہر دھوئیں میں ڈوبے ہوئے یہ نیون سائن کی روشنیوں میں گھری ہوئی تاریک صفیں یہ شور شرابہ آنے والی لمبی رات کی ہیبت کا سچ پوچھو تو اب میرا دکھ تنہائی نہیں کچھ اور ہی بات ہے جس سے دل گھبرایا ہے میں چاہوں تو مجھ کو بھی کوئی بیکار بہانہ ...

    مزید پڑھیے

    بوڑھی کہانی

    جنت کی اجلی چمکیلی دھوپ میں تپ کر میں ہر بار نکھر جاتا ہوں اور دھرتی پر سونے کا اک گرم بدن لے کر آتا ہوں اس دھرتی کا ذرہ ذرہ میرے قدموں کی لذت کو پہچانے ہے چاند کے چہرے پر یہ دھبہ میرے ماضی کا شاہد ہے یہ بوڑھی کمزور ہوائیں اپنی آنکھیں کھو بیٹھی ہیں پھر بھی مجھ کو چھو کر یاد دلاتی ...

    مزید پڑھیے

    مٹھی کھول

    چاروں طرف اندھیرا ہے اور اس کی مٹھی میں جگنو ہیں میں کہتا ہوں مٹھی کھول مٹھی کھول اجالا ہوگا سب بولے، وہ منظر دیکھنے والا ہوگا وہ کہتا ہے مٹھی کھول آسمان پر چاند نہ کوئی ستارا ہے چاروں طرف اندھیارا ہے لیکن میرے ہاتھ میں تو انگارا ہے

    مزید پڑھیے

    بیمار دنوں میں

    میں اپنے بیمار دنوں میں ایک ہی بات کہا کرتا ہوں رات بہت ہی گہری کالی ہو سکتی ہے اور میں لمبی لمبی چادر تان کے سو سکتا ہوں سورج اندھا ہو سکتا ہے چاند ستارے سارے سچ مچ اک اک کر کے بجھ سکتے ہیں لیکن میرے اندر جو ننھا سا ایک دیا روشن ہے اس کے اجلے سائے کبھی نہیں مر سکتے جگ میں گھور ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہرو! میں آتا ہوں

    اگر میرے فسانے میں مسرت کا کوئی پہلو نظر آئے سمجھ لینا تمہارے واسطے میں رات کے گنجان جنگل سے چمکتے جگنوؤں کی قیمتی سوغات لایا ہوں مرے اندر اندھیرے کا سمندر ہے ابھرتا ڈوبتا رہتا ہوں میں جس میں تمہیں معلوم ہے میرا عمل اب ختم ہے، اور رات باقی ہے ابھی اک گھات باقی ہے مرے آکاش کی حد ...

    مزید پڑھیے

    خواہش کا جرم

    اس نے خواہش کی تو وہ ظاہر ہوا رنگ تاریکی سے نکلے اور صدا دینے لگے سایہ سایہ ہو گئی کالی گپھا کی تیرگی اور ہر منظر نمایاں ہو گیا میں بھی تھا اک روشنی اور تیرگی کے درمیاں مجھ کو بھی ظالم ہوا نے ڈس لیا اور میں بھی زندگی کی آگ میں جلتے لگا خاک و خوں کے رنگ میں ڈھلنے لگا اس نے خواہش کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3