Kumar Pashi

کمار پاشی

ممتاز جدید شاعر،رسالہ "سطور" کے مدیر

Prominent modernist poet who also edited a literary Magazine 'Satoor'

کمار پاشی کی نظم

    رجائیت کی حمایت میں

    بے ارادہ چلیں گے تو لا حاصلی کے مصائب سے بچ جائیں گے تم کہوگے کوئی پھول رکھ دوسرے ہات پر دل ہی دل میں میں رو دوں گا اس بات پر میں کہوں گا نہیں کچھ نہ کہہ پاؤں گا قہقہہ مار کر بس ہنسوں گا تمہیں بھی ہنسی آئے گی بے ارادہ یوں ہی بے ارادہ ہنسیں گے یوں ہی دیر تک پھر خیال آئے گا: تم نے اک بات ...

    مزید پڑھیے

    پت جھڑ کی ایک صبح

    سوکھی دھرتی پہ چپ چپ برسنے لگیں نیم کی پتیاں نیچے جھکنے لگا نیلگوں آسماں نام لے کر مرا دور سے جیسے کوئی بلانے لگا یاد آنے لگا ایک گزرا ہوا دن امیدوں بھرا ہلکے ہلکے سے رنگوں میں چلنے لگی دور کے شہر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا

    مزید پڑھیے

    وہ

    سارا گھر جب سو جاتا ہے وہ گھر میں داخل ہوتا ہے سوتے بچوں کے پیروں کے پیار بھرے بوسے لیتا ہے بیوی کے نازک ہونٹوں کو اپنے گالوں سے چھوتا ہے پھر اپنے بستر پر جا کر سونے کی کوشش کرتا ہے جانے کب جھپکی آتی ہے جانے کب وہ سو جاتا ہے دیکھ کے کوئی خواب بھیانک سوتے سوتے چونک اٹھتا ہے رات رات ...

    مزید پڑھیے

    کیا دے سکتے ہو؟

    کسی کو کیا دے سکتے ہو تم! چاند کسی کو دے سکتے ہو؟ تارے؟ یا پھر جگمگ جگنو کسی کو دے سکتے ہو؟ سوکھی شاخ کو ہرا سا پتہ پیاس کو شبنم کا اک قطرہ بجھی بجھی سی آنکھ کو جیوتی بھوک کو روٹی دے سکتے ہو؟ مجھے بتاؤ: دھوپ کو سایا دے سکتے ہو؟ دشت کو دریا دے سکتے ہو؟ تین سو پینسٹھ دنوں میں مجھ کو اک ...

    مزید پڑھیے

    سب دروازے کھول دے

    میں نے اپنے گھر کی ساری کھڑکیاں سب دروازے کھول دیے ہیں سرخ، سنہری سنگ اوشا بھی آئے کچے دودھ سے منہ دھو کر چندا بھی آئے تیز نکیلی دھوپ بھی جھانکے نرم، سہانی ہوا بھی آئے تازہ کھلے ہوئے پھولوں کی من موہن خوشبو بھی آئے دیس دیس کی خاک چھانتا ہوا کوئی سادھو بھی آئے اور کبھی بھولے ...

    مزید پڑھیے

    جنم دن

    آسماں کی وسعتوں میں میری نظریں ڈھونڈھتی ہیں اس حسیں ماضی کو، جس کی یاد کے سائے بھی گھلتے جا رہے ہیں اب ہوا میں اور مری آنکھوں سے اوجھل ہو رہے ہیں لمحہ لمحہ میں پرانا سا کوئی انسان ہوں، محسوس یہ ہوتا ہے مجھ کو میں نے ہر ساون میں دھویا ہے بدن کو اور یہ دھرتی مجھے روز ازل سے جانتی ...

    مزید پڑھیے

    خواب تماشا(2)

    تم بتلاؤ کیا جانتے ہو کیا سوچتے ہو اور اس بیکار تماشے میں کیوں زندہ ہو اوپر نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے ہے ایک رنگ جو کچھ بھی تھا وہ سب کالک میں ڈوب گیا جو کچھ بھی ہے وہ رفتہ رفتہ رنگ بدلتا جاتا ہے یہ چاند یہ سورج سیارے یہ منظر منظر نظارے اک خواب ہے سوئے آدمی کا جو سویا ہے شاید ...

    مزید پڑھیے

    ساحلوں سے کہو، میں نہیں آؤں گا

    ساحلوں سے کہو، میں نہیں آؤں گا اب کسی شہر کی رات میرے لیے جگمگائے نہیں دھوپ بوڑھے مکانوں کی اونچی چھتوں پر مرا نام لے کر بلائے نہیں میں نہیں آؤں گا یاد آتا ہے، اک دن کسی سے کہا تھا تجھے پہن کر دور کے شہر کی اجنبی دھرتیوں میں اتر جاؤں گا میں عقیدہ ہوں: مر جاؤں گا یاد آتا ہے، اک دن ...

    مزید پڑھیے

    لفظ نہیں بولتے

    سنا یہی ہے کہ لفظ اب بولتے نہیں ہیں جو مجھ پہ اب تک گزر چکا ہے گزر رہا ہے وہ لفظ در لفظ مر رہا ہے میں ہر طرف سے مرے ہوؤں میں گھرا ہوا ہوں کبھی کبھی میں ڈرا ڈرا سا سبھی کو چپ چاپ دیکھتا ہوں کبھی کبھی سر اٹھا کے مردے اداس آنکھوں سے دیکھتے ہیں میں موت کی وادیوں میں جیسے اتر گیا ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    ایودھیا! میں آ رہا ہوں

    ایودھیا! آ رہا ہوں میں میں تیری کوکھ سے جنما تری گودی کا پالا ہوں تری صدیوں پرانی سانولی مٹی میں کھیلا ہوں مجھے معلوم ہے تو مجھ سے روٹھی ہے مگر اب دور تجھ سے رہ نہیں سکتا پرائے دیش میں گزری ہے جو مجھ پر وہ خود سے بھی کبھی میں کہہ نہیں سکتا ذرا سر تو اٹھا اور دیکھ کتنی دور سے تجھ کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3