Khalilur Rahman Azmi

خلیل الرحمن اعظمی

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding fathers of modern Urdu criticism in the subcontinient.

خلیل الرحمن اعظمی کی نظم

    آئینہ در آئینہ

    میں آج سویرے جاگ اٹھا دیکھا کہ ہے ہر سو سناٹا چپ چاپ ہے سارا گھر آنگن باہر سے بند ہے دروازہ سب بھائی بہن بیوی بچے آخر ہیں کہاں ہے کیا قصہ اتنے میں عجب اک بات ہوئی ناگاہ جو دیکھا آئینہ اک آدمی مجھ کو آیا نظر مجھ سے ہی مگر ملتا جلتا دو سینگ ہیں اس کے سر پہ اگے یہ دیو ہے کوئی یا ...

    مزید پڑھیے

    یاد

    اب بھی دروازہ روز کھلتا ہے راستہ میرا تک رہا ہے کوئی میرے گھر کے اداس منظر پر کوئی شے اب بھی مسکراتی ہے میری ماں کے سفید آنچل کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں روتی ہیں فاصلہ اور کتنی تنہائی آج کٹتی نہیں ہیں یہ راتیں آسماں مجھ پہ طنز کرتا ہے چاند تاروں میں ہوتی ہیں باتیں اے وطن تیرے مرغ ...

    مزید پڑھیے

    نیند پیاری نیند

    جب کھلی آنکھوں سے اپنے آس پاس دیکھتا ہوں اپنی دنیا کس قدر محدود و تنگ اور پھر اک جاگتے لمحے میں میں بند کر لیتا ہوں اپنی آنکھ اور دیکھتا ہوں سامنے پھیلا ہوا اک جہان بے کنار دیکھتا ہوں اپنی ہی آنکھوں سے وہ سارے مناظر شہر اور آبادیاں سیکڑوں صدیوں سے جو محفوظ ہیں کس کو دیکھوں کس کو ...

    مزید پڑھیے

    سایۂ دیوار

    کیسا سنسان ہے دشت آوارگی ہر طرف دھوپ ہے ہر طرف تشنگی کیسی بے جان ہے مے کدے کی فضا جسم کی سنسنی روح کی خستگی اس دوراہے پہ کھوئے گئے حوصلے اس اندھیرے میں گم ہو گئی زندگی اے غم آرزو میں بہت تھک گیا مجھ کو دے دے وہی میری اپنی گلی چھوٹا موٹا مگر خوبصورت سا گھر گھر کے آنگن میں خوشبو سی ...

    مزید پڑھیے

    سودا گر

    لو گجر بج گیا صبح ہونے کو ہے دن نکلتے ہی اب میں چلا جاؤں گا اجنبی شاہراہوں پہ پھر کاسۂ چشم لے لے کے ایک ایک چہرہ تکوں گا دفتروں کارخانوں میں تعلیم گاہوں میں جا کر اپنی قیمت لگانے کی کوشش کروں گا میری آرام جاں مجھ کو اک بار پھر دیکھ لو آج کی شام لوٹوں گا جب بیچ کر اپنے شفاف دل کا ...

    مزید پڑھیے

    بن باس

    میں کہ خود اپنی ہی آواز کے شعلوں کا اسیر میں کہ خود اپنی ہی زنجیر کا زندانی ہوں کون سمجھے گا جہاں میں مرے زخموں کا حساب کس کو خوش آئے گا اس دہر میں روحوں کا عذاب کون آ کر مرے مٹنے کا تماشا دیکھے کس کو فرصت کہ اجڑتی ہوئی دنیا دیکھے کون بھڑکی ہوئی اس آگ کو اپنائے گا جو بھی آئے گا مرے ...

    مزید پڑھیے

    بدلتے موسم

    وہی پیارے مدھر الفاظ میٹھی رس بھری باتیں وہی روشن روپہلے دن وہی مہکی ہوئی راتیں وہی میرا یہ کہنا تم بہت ہی خوبصورت ہو تمہارے لب پہ یہ فقرہ کہ تم ہی میری قسمت ہو وہی میرا پرانا گیت تم بن جی نہیں سکتا میں ان ہونٹوں کی پی کر اب کوئی مے پی نہیں سکتا یہ سب کچھ ٹھیک ہے پر اس سے جی گھبرا ...

    مزید پڑھیے

    کتبہ(۲)

    یہ اس شخص کی قبر ہے جس کے اب جسم کا کوئی ذرہ یہاں پر نہیں ہے نہ اس کو کوئی کام اس قبر سے نہ اس کو خبر ہے کہ یہ کس کا گھر ہے تو اس شخص کے ایک بے نام گھر کو کوئی کیوں کسی نام سے آج منسوب کر دے اور اس نام کا ایک کتبہ بنائے یہ دنیا ہے جس میں نہ ایسا کوئی گھر بنا ہے نہ آگے بنے گا کہ اس کا مکیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3