Khalilur Rahman Azmi

خلیل الرحمن اعظمی

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding fathers of modern Urdu criticism in the subcontinient.

خلیل الرحمن اعظمی کی نظم

    نیا جنم

    ابھی اک سال گزرا ہے یہی موسم یہی دن تھے مگر میں اپنے کمرے میں بہت افسردہ بیٹھا تھا نہ کوئی سانولے محبوب کی یادوں کا افسانہ نہ ایوان زمستاں کی طرف جانے کی کچھ خواہش کسی نے حال پوچھا تو بہت ہی بے نیازی سے کہا جی ہاں خدا کا شکر ہے میں خیریت سے ہوں کوئی یہ پوچھتا کیوں آج کل کوئی غزل ...

    مزید پڑھیے

    لمحے کی موت

    کچھ دور تلک کچھ دور تلک وہ لمحہ اس کے ساتھ چلا جب اس نے دل میں یہ سوچا یہ گرتی دیواریں یہ دھواں یہ کالی چھتیں یہ اندھے دیئے سنولاتے ہوئے سارے چہرے اب اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں گے جب نگر نگر کی سیاہی ان ٹیڑھی میڑھی سڑکوں کی آوارہ گردی ہنستے جسم کھنکتے پیالوں کی موسیقی اس کو ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے جنم کی کتھائیں

    مجھے کچھ نہیں گیان یہ زندگی کیا ہے؟ یہ موت کیا ہے؟ میں کتنے دنوں سے یہی سوچتا ہوں کہ میں کیا ہوں، میں کیا نہیں ہوں مری عمر جس طرح گزری ہے اس کو بھی کیوں اک عمر کہئے یہ اک عمر میں تقسیم ہے اور ہر لمحہ ایک دوسرے سے جدا ہے جب اک لمحہ مرتا ہے تو دوسرا لمحہ تخلیق پاتا ہے پہلو میں آ کر مرے ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں سے ڈر لگتا ہے

    کل کا سورج اسی دہلیز پہ دیکھے گا مجھے کل بھی کشکول مرا شام کو بھر جائے گا کل کی تخلیق بھی ہوگی یہی اک نان جویں کل بھی ہر دن کی طرح یوں ہی گزر جائے گا بھوک کی آگ جو بجھتی ہے تو نیند آتی ہے نیند آتی ہے تو کچھ خواب دکھاتی ہے مجھے خواب میں ملتے ہیں کچھ لوگ بچھڑ جاتے ہیں ان کی یاد اور بھی ...

    مزید پڑھیے

    آپ بیتی

    1 یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے شمع جلتی ہے پر اک رات میں جل جاتی ہے یاں تو ایک عمر اسی طرح سے جلتے گزری کون سی خاک ہے یہ جانے کہاں کا ہے خمیر اک نئے سانچے میں ہر روز ہی ڈھلتے گزری کس طرح میں نے گزاری ہیں یہ غم کی گھڑیاں کاش میں ایسی کہانی کو سنا ...

    مزید پڑھیے

    کتبہ(۴)

    وہ اک شخص تھا جو اکیلا تھا اس کا کوئی بھی نہ تھا اک اکائی تھا وہ اور اک دن خود اپنی اکائی میں ضم ہو گیا اس نے مرتے ہوئے اک وصیت لکھی جس میں لکھا تھا! اے آدمی! اے وہ اک شخص جو مرے مرنے کی پہلی خبر سن کے دوڑے اور آواز دے بھائیو آؤ اس کا جنازہ اٹھاؤ اور اس آواز پہ کوئی آواز اس تک نہ ...

    مزید پڑھیے

    کتبہ(۳)

    مری قبر پر ایک کتبہ تو ہے پر مرا نام اس پر نہیں ہے مرا نام جو کچھ بھی لکھا گیا تھا وہ اب مٹ چکا ہے یہ کتبہ سفید اور سادہ سا ہے مگر خالی خالی اسے دیکھ کر ہر اک آنے والا یہ کہتا ہے کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ بتاؤ کوئی شخص ایسا بھی ہے مرا کوئی ہمدرد میرا معاون جو آئے اور آ کر مرے سادہ کتبے پہ ...

    مزید پڑھیے

    کرب

    روز جب صبح کو اپنے گھر سے نکلتا ہوں میں راستے میں کوئی دوست مل جائے یا جان پہچان والا میں بڑی گرم جوشی سے اس کی طرف بڑھ کے جاتا ہوں آداب کرتا ہوں اور مسکراتا بھی ہوں (جیسے میں آج کے دن اور گھر پہ سب خیریت ہے) مجھ کو ہر ہر قدم پر کئی طرح کے لوگ ملتے ہیں جو اونچی دکانوں پہ بیٹھے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    میرا گھر میرا ویرانہ

    دیدنی ہے یہ مرا گھر مرا ویرانہ بھی اس گزر گاہ پہ کچھ دیر ٹھہر جا سیاح مجھ کو معلوم ہے تو سارا جہاں دیکھ چکا ہاں افق تا بہ افق ساری زمیں دیکھی ہے تو نے ایوان بھی دیکھے ہیں کھنڈر بھی دیکھے وادیاں دیکھیں پہاڑوں کی جبیں دیکھی ہے میری دنیا میں ذرا دیکھ کہ اس دنیا کو دیکھنے والوں نے ...

    مزید پڑھیے

    میں گوتم نہیں ہوں

    میں گوتم نہیں ہوں مگر میں بھی جب گھر سے نکلا تھا یہ سوچتا تھا کہ میں اپنے ہی آپ کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں کسی پیڑ کی چھاؤں میں میں بھی بیٹھوں گا اک دن مجھے بھی کوئی گیان ہوگا مگر جسم کی آگ جو گھر سے لے کر چلا تھا سلگتی رہی گھر سے باہر ہوا تیز تھی اور بھی یہ بھڑکتی رہی ایک اک پیڑ جل کر ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3