Khalilur Rahman Azmi

خلیل الرحمن اعظمی

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding fathers of modern Urdu criticism in the subcontinient.

خلیل الرحمن اعظمی کی غزل

    وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا

    وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا گھر میں کوئی آئے کہ نہ آئے ایک دیا سا جلتا تھا یاد آتی ہیں وہ شامیں جب رسم و راہ کسی سے تھی ہم بے چین سے ہونے لگتے جوں جوں یہ دن ڈھلتا تھا ان گلیوں میں اب سنتے ہیں راتیں بھی سو جاتی ہیں جن گلیوں میں ہم پھرتے تھے جہاں وہ چاند نکلتا تھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    طرز جینے کے سکھاتی ہے مجھے

    طرز جینے کے سکھاتی ہے مجھے تشنگی زہر پلاتی ہے مجھے رات بھر رہتی ہے کس بات کی دھن نہ جگاتی نہ سلاتی ہے مجھے آئینہ دیکھوں تو کیونکر دیکھوں یاد اک شخص کی آتی ہے مجھے بند کرتا ہوں جو آنکھیں کیا کیا روشنی سی نظر آتی ہے مجھے کوئی مل جائے تو رستہ کٹ جائے اپنی پرچھائیں ڈراتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی!

    میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی! پھر صدا اپنی سنا دے زندگی اے زندگی! سو گئے اک ایک کر کے خانۂ دل کے چراغ ان چراغوں کو جگا دے زندگی اے زندگی! وہ بساط شعر و نغمہ رت جگے وہ چہچہے پھر وہی محفل سجا دے زندگی اے زندگی! جس کے ہر قطرے سے رگ رگ میں مچلتا تھا لہو پھر وہی اک شے پلا دے ...

    مزید پڑھیے

    ہر گھڑی عمر فرومایہ کی قیمت مانگے

    ہر گھڑی عمر فرومایہ کی قیمت مانگے مجھ سے آئینہ مرا میری ہی صورت مانگے دور رہ کر ہی جو آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں دل دیوانہ مگر ان کی ہی قربت مانگے پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں کی اداسی کا سبب خواب جو دیکھے وہ خوابوں کی حقیقت مانگے اپنے دامن میں چھپا لے مرے اشکوں کے چراغ اور کیا تجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    ہم بانسری پر موت کی گاتے رہے نغمہ ترا

    ہم بانسری پر موت کی گاتے رہے نغمہ ترا اے زندگی اے زندگی رتبہ رہے بالا ترا اپنا مقدر تھا یہی اے منبع آسودگی بس تشنگی بس تشنگی گو پاس تھا دریا ترا اس گام سے اس گام تک زنجیر غم کے فاصلے منزل تو کیا ہم کو ملے، چلتا رہے رستا ترا تو کون تھا کیا نام تھا تجھ سے ہمیں کیا کام تھا ہے پردۂ ...

    مزید پڑھیے

    پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی

    پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی وہی اک شے جو اجنبی ہوگی شور سا ہے لہو کے دریا میں کس کی آواز آ رہی ہوگی پھر مری روح میرے گھر کا پتہ میرے سائے سے پوچھتی ہوگی کچھ نہیں میری زرد آنکھوں میں ڈوبتے دن کی روشنی ہوگی رات بھر دل سے بس یہی باتیں دن کو پھر درد میں کمی ہوگی بس یہی ایک بوند آنسو ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں بھی کیوں نہ ہو دعویٰ کہ ہم بھی یکتا ہیں

    ہمیں بھی کیوں نہ ہو دعویٰ کہ ہم بھی یکتا ہیں ہمارے خون کے پیاسے جب اہل دنیا ہیں بس اس خطا پہ کہ پہچانتے ہیں کیوں سب کو یہ صاحبان نظر شہر بھر میں رسوا ہیں ہم اہل دل کا زمانہ ہی ساتھ دے نہ سکا ہمیں بھی دکھ ہے کہ ہم اس سفر میں تنہا ہیں ہمیں نہ جانو فقط ڈوبتا ہوا لمحہ ہمیں یقیں ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    پینا نہیں حرام، ہے زہر وفا کی شرط

    پینا نہیں حرام، ہے زہر وفا کی شرط آؤ اٹھا دیں آج مئے جاں فزا کی شرط شوریدگئ سر کے لیے سنگ در کی قید زنجیر غم کے واسطے زلف دوتا کی شرط ہو دوپہر کی دھوپ تو پلکوں کے سائباں راتیں گزارنی ہوں تو کالی بلا کی شرط یہ کیا ضرور ہو مژہ عشق خوں فشاں کیوں دست ناز کے لیے رنگ حنا کی شرط ہر دل ...

    مزید پڑھیے

    اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا

    اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال محفل میں بے سبب وہی مجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا

    ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا میرا لہو بھی پی کے نہ دنیا جواں ہوئی قیمت مرے جنوں کی مرا سر نہ ہو سکا تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی اب کے تو میرا گھر بھی مرا گھر نہ ہو سکا تیرے نہ ہو سکے تو کسی کے نہ ہو سکے یہ کاروبار شوق مکرر نہ ہو سکا یوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5