Kashif Husain Ghair

کاشف حسین غائر

نئی نسل کے نمائندہ شاعر

One of the most prominent new generation Pakistani poets

کاشف حسین غائر کی غزل

    اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

    اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے زندہ رہنے کا نشہ ہی ایسا ہے جتنی بھی ہو مدت کم پڑ جاتی ہے اپنے آپ سے ملتا ہوں میں فرصت میں اور پھر مجھ کو فرصت کم پڑ جاتی ہے صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں جن ...

    مزید پڑھیے

    تھا بہت شور یہاں ایک زمانے میں مرا

    تھا بہت شور یہاں ایک زمانے میں مرا اب کوئی عکس نہیں آئنہ خانے میں مرا راہ سے آنکھ ملانے کا ہنر جان گیا وقت تو صرف ہوا خاک اڑانے میں مرا اپنی یکجائی سے تنہائی سے پورا نہ ہوا جتنا نقصان ہوا شہر بسانے میں مرا جانتا ہوں کہ اسے میری ضرورت ہی نہیں ورنہ کیا جاتا بھلا لوٹ کے آنے میں ...

    مزید پڑھیے

    ہر شام دلاتی ہے اسے یاد ہماری

    ہر شام دلاتی ہے اسے یاد ہماری اتنی تو ہوا کرتی ہے امداد ہماری کچھ ہیں بھی اگر ہم تو گرفتار ہیں اپنے زنجیر نظر آتی ہے آزاد ہماری یہ شہر نظر آتا ہے ہم زاد ہمارا اور گرد نظر آتی ہے فریاد ہماری یہ راہ بتا سکتی ہے ہم کون ہیں کیا ہیں یہ دھول سنا سکتی ہے روداد ہماری ہم گوشہ نشینوں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہر گام بدلتے رہے منظر مرے آگے

    ہر گام بدلتے رہے منظر مرے آگے چلتا ہی رہا کوئی برابر مرے آگے کیا خاک مری خاک میں امکان ہو پیدا ناپید ہیں موجود و میسر مرے آگے یوں دیکھنے والوں کو نظر آتا ہوں پیچھے رہتا ہے مسافت میں مرا گھر مرے آگے رکھتی ہے عجب پاس مری تشنہ لبی کا سو موج اٹھاتی ہی نہیں سر مرے آگے ہنستا ہی رہا ...

    مزید پڑھیے

    غالباً وقت کی کمی ہے یہاں

    غالباً وقت کی کمی ہے یہاں ورنہ ہر چیز دیدنی ہے یہاں سارے رستے ادھر ہی آتے ہیں یہ جو آباد اک گلی ہے یہاں یہ ہوا یوں ہی خاک چھانتی ہے یا کوئی چیز کھو گئی ہے یہاں زندگی ہی مرا اثاثہ ہے وہ بھی تقسیم ہو رہی ہے یہاں کیوں اندھیرا نظر نہیں آتا کون سی ایسی روشنی ہے یہاں موت کاسہ اٹھائے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے منسوب ہے غبار مرا

    مجھ سے منسوب ہے غبار مرا قافلے میں نہ کر شمار مرا ہر نئی شام میری اجرت ہے دن بتانا ہے روزگار مرا یہ تیری جاگتی ہوئی آنکھیں ان پہ ہر خواب ہو نثار مرا کون آتا نہیں ادھر پھر بھی دھیان جاتا ہے بار بار مرا رات کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا ان چراغوں پہ اعتبار مرا وقت اتنا کہاں تھا وقت کے ...

    مزید پڑھیے

    تیرا خیال تیری تمنا تک آ گیا

    تیرا خیال تیری تمنا تک آ گیا میں دل کو ڈھونڈھتا ہوا دنیا تک آ گیا کیا اتنا بڑھ گیا مری تشنہ لبی کا شور سیلاب دیکھنے مجھے صحرا تک آ گیا لیکن خزاں کی نذر کیا آخری گلاب ہر چند اس میں مجھ کو پسینہ تک آ گیا آگے رہ فراق میں آنا ہے اور کیا آنکھوں کے آگے آج اندھیرا تک آ گیا کیا ارتقا ...

    مزید پڑھیے

    مدت سے کوئی شور بپا ہو نہیں رہا

    مدت سے کوئی شور بپا ہو نہیں رہا اور ہاتھ ہے کہ دل سے جدا ہو نہیں رہا اک صبح تھی جو شام میں تبدیل ہو گئی اک رنگ ہے جو رنگ حنا ہو نہیں رہا ہم بھی وہی دیا بھی وہی رات بھی وہی کیا بات ہے جو رقص ہوا ہو نہیں رہا ہم بھی کسی خیال کے سناہٹوں میں گم تم سے بھی پاس عہد وفا ہو نہیں رہا کیا ...

    مزید پڑھیے

    غبار دشت یکسانی سے نکلا

    غبار دشت یکسانی سے نکلا یہ رستہ میری بے دھیانی سے نکلا نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا نہ نکلا کام کوئی ضبط غم سے نہ اشکوں کی فراوانی سے نکلا نہ آنکھیں ہی ہوئیں غرقاب دریا نہ کوئی عکس ہی پانی سے نکلا ادھر نکلی وہ خوشبو شہر گل سے ادھر میں باغ ویرانی ...

    مزید پڑھیے

    سیر کرنے سے ہوا لینے سے

    سیر کرنے سے ہوا لینے سے کام ہے دل کو مزہ لینے سے دھوپ سائے کی طرح پھیل گئی ان درختوں کی دعا لینے سے اس طرح حال کوئی چھپتا ہے اس طرح زخم چھپا لینے سے کوئی مقبول دعا ہوتی ہے صرف ہاتھوں کو اٹھا لینے سے میرے جیسا وہ نہیں ہو سکتا میرا انداز چرا لینے سے رات کچھ اچھی گزر جاتی ہے چاند ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4