تیرا خیال تیری تمنا تک آ گیا

تیرا خیال تیری تمنا تک آ گیا
میں دل کو ڈھونڈھتا ہوا دنیا تک آ گیا


کیا اتنا بڑھ گیا مری تشنہ لبی کا شور
سیلاب دیکھنے مجھے صحرا تک آ گیا


لیکن خزاں کی نذر کیا آخری گلاب
ہر چند اس میں مجھ کو پسینہ تک آ گیا


آگے رہ فراق میں آنا ہے اور کیا
آنکھوں کے آگے آج اندھیرا تک آ گیا


کیا ارتقا پذیر ہے انسان کا ضمیر
رشتوں کو چھوڑ چھاڑ کے اشیاء تک آ گیا


لیکن کسی دریچے سے جھانکا نہ کوئی رات
سن کر مری پکار ستارہ تک آ گیا


کاشفؔ حسین یار اٹھو اب تو چل پڑو
چل کر تمہارے پاؤں میں رستہ تک آ گیا