Kashif Husain Ghair

کاشف حسین غائر

نئی نسل کے نمائندہ شاعر

One of the most prominent new generation Pakistani poets

کاشف حسین غائر کی غزل

    خواب بنتا رہوں میں بستر پر

    خواب بنتا رہوں میں بستر پر اور تکیہ کروں مقدر پر محو پرواز ہے یہ دل اور میں جاں چھڑکتا ہوں اس کبوتر پر عمر بھر دیکھتے رہے سائے دھوپ پڑتی رہی مرے سر پر خود سے مشکل ہوا سخن کرنا وقت وہ آ پڑا سخن ور پر نیند اڑنے لگی ہے آنکھوں سے دھول جمنے لگی ہے بستر پر خاک ہونے سے پیشتر ...

    مزید پڑھیے

    وہ رات جا چکی وہ ستارہ بھی جا چکا

    وہ رات جا چکی وہ ستارہ بھی جا چکا آیا نہیں جو دن وہ گزارہ بھی جا چکا اس پار ہم کھڑے ہیں ابھی تک اور اس طرف لہروں کے ساتھ ساتھ کنارہ بھی جا چکا دکھ ہے ملال ہے وہی پہلا سا حال ہے جانے کو اس گلی میں دوبارہ بھی جا چکا کیا جانے کس خیال میں عمر رواں گئی ہاتھوں سے زندگی کے خسارہ بھی جا ...

    مزید پڑھیے

    جو اشک بچ گئے انہیں لاتا ہوں کام میں

    جو اشک بچ گئے انہیں لاتا ہوں کام میں تھوڑی سی دھوپ روز ملاتا ہوں شام میں بستی میں اک چراغ کے جلنے سے رات بھر کیا کیا خلل پڑا ہے ستاروں کے کام میں اک شخص اپنی ذات کی تعمیر چھوڑ کر مصروف آج کل ہے مرے انہدام میں مجھ کو بھی اس گلی میں محبت کسی سے تھی اب نام کیا بتاؤں رکھا کیا ہے نام ...

    مزید پڑھیے

    یاد وہ عمر بھر رہے گا کیا

    یاد وہ عمر بھر رہے گا کیا دل اسی کام پر رہے گا کیا کیا بکھر کے رہیں گے خواب مرے آئنہ ٹوٹ کر رہے گا کیا کیا ہوا اب ادھر نہ آئے گی حبس یہ عمر بھر رہے گا کیا وہ جو اک شخص میرے اندر ہے میرے اندر ہی مر رہے گا کیا میں ہوا کی طرح ہوں آوارہ تو مرا ہم سفر رہے گا کیا نیند اڑتی رہے گی آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

    اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے اپنے آپ سے ملتا ہوں میں فرصت میں اور پھر مجھ کو فرصت کم پڑ جاتی ہے کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں جن باتوں کو خلوت کم پڑ جاتی ہے اک دن یوں ہوتا ہے خوش رہتے ...

    مزید پڑھیے

    نظر ملی تو نظاروں میں بانٹ دی میں نے

    نظر ملی تو نظاروں میں بانٹ دی میں نے یہ روشنی بھی ستاروں میں بانٹ دی میں نے بس ایک شام بچی تھی تمہارے حصے کی مگر وہ شام بھی یاروں میں بانٹ دی میں نے جناب قرض چکایا ہے یوں عناصر کا کہ زندگی انہی چاروں میں بانٹ دی میں نے پکارتے تھے برابر مجھے سفر کے لئے متاع خواب سواروں میں بانٹ ...

    مزید پڑھیے

    اپنا بھی بوجھ مجھ سے کہاں ٹھیک سے اٹھا

    اپنا بھی بوجھ مجھ سے کہاں ٹھیک سے اٹھا یہ سارا مسئلہ مری تشکیک سے اٹھا وہ حال تھا کہ بس مرا اٹھنا محال تھا لیکن پھر ایک خواب کی تحریک سے اٹھا کاندھوں پہ تیرے آبرو مندی کا بوجھ ہے یہ راہ زندگی ہے قدم ٹھیک سے اٹھا کاشفؔ حسین خلق کے اٹھنے کی دیر تھی اک آفتاب گوشۂ تاریک سے ...

    مزید پڑھیے

    اے ہوا تو ہی نہیں میں بھی ہوں

    اے ہوا تو ہی نہیں میں بھی ہوں خاک اڑاتا تو یہیں میں بھی ہوں صرف آباد نہیں سناٹا اس خرابے کا مکیں میں بھی ہوں ان ستاروں میں کہیں تم بھی ہو ان نظاروں میں کہیں میں بھی ہوں کیا تھا جو دشت نشیں تھا مجنوں کیا ہے جو گوشہ نشیں میں بھی ہوں شاد آباد زمیں کس سے ہے ناز بردار زمیں میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    گزشتگاں میں ہمارا شمار ہونے میں

    گزشتگاں میں ہمارا شمار ہونے میں اب اور وقت ہے کتنا غبار ہونے میں تو میرا راز بھی کیسے چھپا گیا مجھ سے ترا جواب نہیں رازدار ہونے میں یہ قید خانہ بھی اک شب میں کتنا پھیل گیا اب اور دیر لگے گی فرار ہونے میں یہاں کسی کا کوئی غم گسار کیوں ہوگا کہ فائدہ ہی نہیں غم گسار ہونے میں ہے ...

    مزید پڑھیے

    اچانک کس کو یاد آئی ہماری

    اچانک کس کو یاد آئی ہماری کہانی کس نے دہرائی ہماری چلو آیا نہ آیا جانے والا صدا تو لوٹ کر آئی ہماری گزشتہ شب ہوا سے گفتگو کی چراغوں نے قسم کھائی ہماری نظر آیا ہے وہ بیمار اپنا کھلی جس پر مسیحائی ہماری تری خوشبو سے ہے آباد اب تک یہ باغ دل یہ انگنائی ہماری زمیں آباد ہوتی جا رہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4