مجھ سے منسوب ہے غبار مرا
مجھ سے منسوب ہے غبار مرا
قافلے میں نہ کر شمار مرا
ہر نئی شام میری اجرت ہے
دن بتانا ہے روزگار مرا
یہ تیری جاگتی ہوئی آنکھیں
ان پہ ہر خواب ہو نثار مرا
کون آتا نہیں ادھر پھر بھی
دھیان جاتا ہے بار بار مرا
رات کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا
ان چراغوں پہ اعتبار مرا
وقت اتنا کہاں تھا وقت کے پاس
ورنہ کرتا وہ انتظار مرا
کیا عجب ہے کہ سر بلند کرے
ایک دن مجھ کو انکسار مرا
نیند پر میری دسترس غائرؔ
اور نہ خوابوں پہ اختیار مرا