Karrar Noori

کرار نوری

اردو کے ممتاز شاعر،ادیب،مترجم،صحافی اور مرزا غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پرپوتے تھے۔

کرار نوری کی غزل

    فن کی اور ذات کی پیکار نے سونے نہ دیا

    فن کی اور ذات کی پیکار نے سونے نہ دیا دل میں جاگے ہوئے فن کار نے سونے نہ دیا ہر طرف تپتی ہوئی دھوپ مرے ساتھ گئی زیر سایہ کسی دیوار نے سونے نہ دیا ایک معصوم سی صورت کو کہیں دیکھا تھا پھر بھی چشمان گنہ گار نے سونے نہ دیا میرے ہم سایے میں شاید ہے کوئی مجھ جیسا ہے جو چرچا کسی بیمار ...

    مزید پڑھیے

    چونکا ہے آج یوں ترا دیوانہ خواب میں

    چونکا ہے آج یوں ترا دیوانہ خواب میں جیسے کہ مل گیا کوئی ویرانہ خواب میں لکھنا ہے پچھلے دن کا بھی افسانہ خواب میں اے ہونے والی صبح نہ آ جانا خواب میں دن بھر کی مشکلات کی دونی سزا ملی بیداریوں کا خواب ہے دہرانا خواب میں ہم کو غم جہاں نے دلاسے بہت دیے بہلانا جاگتے میں تو سمجھانا ...

    مزید پڑھیے

    میں لمحہ لمحہ نئے اپنے خد و خال میں تھا

    میں لمحہ لمحہ نئے اپنے خد و خال میں تھا کہ جو بھی کچھ تھا میں اپنی شکست حال میں تھا نظر پڑا تو وہ ایسے نہ دیکھا ہو جیسے وہ عکس عکس تھا اور اپنے ہی جمال میں تھا ترے خیال سے میں اس قدر ہوا مانوس تو سامنے تھا مگر میں ترے خیال میں تھا شکست و ریخت نے ہی مجھ کو خود کفیل کیا تھا زخم زخم ...

    مزید پڑھیے

    روکے کچھ دیر غبار آنکھ کا دھو لیں ہم بھی

    روکے کچھ دیر غبار آنکھ کا دھو لیں ہم بھی اپنے بھی دل کو ذرا آج ٹٹولیں ہم بھی نام لے کر کبھی ہم کو بھی پکارے کوئی اپنا دروازہ کسی روز تو کھولیں ہم بھی لفظ و معنی بھی ابھرنے لگے سناٹے سے در و دیوار جو بولے ہیں تو بولیں ہم بھی جی میں آتا ہے کبھی ان کا تصور لے کر کوئی جاتا ہو کہیں ...

    مزید پڑھیے

    کرب ہے کرب کی آواز برابر ہے یہی

    کرب ہے کرب کی آواز برابر ہے یہی تیری قیمت ہے یہی تیرا مقدر ہے یہی جی میں ہے اب کسی دروازے پہ دستک دے دوں اور پھر پوچھوں کہ اے شخص مرا گھر ہے یہی کون سمجھے گا اگر میں نے کہی بھی روداد چپ ہی ہو جاؤں مرے واسطے بہتر ہے یہی اب تو جو ذرہ بھی دامن سے لپٹ جاتا ہے میں سمجھتا ہوں مرا مہر ...

    مزید پڑھیے

    فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی

    فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی بھوک کی آگ نے لہجے میں تمازت بھر دی کچھ تو ہے زیست جو وقف مے و ساغر کر دی ورنہ کس کو ہے پسند اپنے لیے بیدردی عشق آوارہ و بدنام نے عزت رکھ لی ہم سے بے گھر بھی کیا کرتے ہیں کوچہ گردی بات تو جب ہے کہ تم کہنے لگو اس کو بسنت گل و گلزار پہ جو آنے لگی ہے ...

    مزید پڑھیے

    اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا

    اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا باب گلشن جسے سمجھے در زنداں نکلا اتنا نزدیک مرے تو بھی کبھی آ نہ سکا جتنا نزدیک مرے یہ غم دوراں نکلا ان کی محفل سے میں لے آیا تمنا ان کی لوگ سمجھے تھے کہ میں بے سر و ساماں نکلا رک کے اک اشک نے کیا کیا نہ جلایا ہم کو دل کا سورج بھی چراغ تہ داماں ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے گھر میں ہیں اس طرح آج آئے ہوئے

    خود اپنے گھر میں ہیں اس طرح آج آئے ہوئے کہ جیسے گھر میں کسی کے ہوں ہم بلائے ہوئے کہ جیسے اب کوئی خورشید آ ہی جائے گا ہیں اپنے گھر کے اندھیروں سے لو لگائے ہوئے خدا کرے در و دیوار کان رکھتے ہوں زمانہ گزرا ہے روداد غم سنائے ہوئے ان آندھیوں میں نہ جانے کدھر سے آ جاؤ میں جا رہا ہوں ہر ...

    مزید پڑھیے

    تری ہی طرح ہمیں یاد آنے والا ہو

    تری ہی طرح ہمیں یاد آنے والا ہو ترے سوا بھی کوئی تو ستانے والا ہو ہر ایک صبح یہی دل میں ہوک اٹھتی ہے ہمیں بھی ناز سے کوئی جگانے والا ہو وہ کس امید پہ گھر میں رہے کہ جس گھر میں نہ آنے والا ہو کوئی نہ جانے والا ہو ہر اک سے نظریں ملائی ہیں ان کے کوچے میں کہ جیسے اب کوئی ہم کو بلانے ...

    مزید پڑھیے

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے ہم زندگی کی جہد مسلسل کے واسطے موجوں کی طرح سینۂ طوفاں میں ڈھل گئے جب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3